یہ الگ طرح کی ’ڈاگ فائٹ‘ تھی جو حال ہی میں ہمارے ٹی وی چینلوں پر دیکھنے کو ملی۔ آورہ کتوں کے معاملے میں لوگوں میں جم کر ’تو تو، میں میں‘ ہوئی۔ یقینی طور پر یہ اچھی بحث تھی۔ کتے مجھے پیارے ہیں اور میں نے ان کے ساتھ کچھ کافی اچھے لمحات گزارے ہیں۔ وہ پالتو ہوں یا آورہ، ان کی دیکھ بھال ہماری ذمہ داری ہے۔ جب لوگ اس دن کے اہم واقعات کے بارے میں جاننا چاہ رہے ہوں، تب ہمارے نیوز چینلوں کا اس موضوع پر بحث کو ترجیح دینا یا تو انجانے میں ہو یا موضوع سے متعلق ہو یا پھر یہ جان بوجھ کر کیا گیا جو اب ظاہر سی بات ہو چکی ہے۔
Published: undefined
کتوں سے جڑے معاملے پر یہ گرما گرم بحث ایسے وقت ہو رہی تھی جب غیر موسمی بارش نے کھڑی فصلوں پر قہر برپا کر رکھا تھا، روپیہ اور نیچے گر رہا تھا، ہندوستان گلوبل ہنگر انڈیکس میں مزید نیچے چلا گیا تھا، کانگریس کے قومی صدر کا انتخاب ہو رہا تھا اور ’بھارت جوڑو یاترا‘ میں ایسے علاقوں میں بھی زبردست بھیڑ جمع ہو رہی تھی جہاں اسے عوامی حمایت کی سب سے کم امید تھی۔
Published: undefined
اس بات کو لے کر شاید اب بحث و مباحثہ کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ ٹی وی کی خبریں شہریوں اور حکومت کے درمیان دیوار کی طرح بن گئی ہیں اور ان سے لوگوں تک جو خبریں پہنچائے جانے کی امید کی جاتی ہے، وہ اسے روکنے لگی ہیں۔ ہمارے پاس ان چینلوں کی مقبولیت کا پتہ لگانے کا کوئی قابل اعتبار یا سرٹیفائیڈ طریقہ نہیں رہ گیا ہے، لیکن جو کچھ بھی جانکاری موجود ہے، وہ بتاتی ہے کہ بیشتر ٹی وی چینلوں نے خبریں اور اطلاعات حاصل کرنے کے دوسرے طریقے اختیار کر لیے ہیں۔ کیا پرنٹ میڈیا اس سے مختلف ہے؟ بدقسمتی سے نہیں۔ یا تو خبروں کا کم پھیلاؤ ہے یا ان کا مینجمنٹ کرنے والے غیر کارپوریٹ پروڈکشن ہیں جو اس پاکیزہ مقصد کو پورا کرنے کے نام پر کاغذ پر سیاہی پوت رہے ہیں۔
Published: undefined
موجودہ حکومت میں صرف میڈیا ہی نہیں، ہماری جمہوریت کے بیشتر ستون منہدم ہو گئے ہیں۔ ان میں صرف وہی ادارے نہیں ہیں جو حکومت کے لیے ان کے ساتھ کام کرتے ہیں، نہ صرف وہ ادارہ جن سے جمہوریت میں توازن بنائے رکھنے کے لیے یکسر مخالف نظریہ رکھنے کی امید کی جاتی ہے۔ یہ پارٹی سسٹم بھی ہے جو ہندوستانی جمہوریت کی ریڑھ ہے۔ نومنتخب عوامی نمائندوں کو بی جے پی نے جس طرح لالچ دیا یا ڈرایا دھمکایا ہے، وہ دکھاتا ہے کہ وہ ہمارے آئین کے اس جذبہ کو کتنا کم دھیان رکھتی ہے جو شہریوں کی فکروں اور مفادات کی آواز اٹھانے کے لیے نومنتخب نمائندوں کے لیے نظام دستیاب کراتی ہے۔ جب انتخابات کی رسمیں پوری ہو گئی ہوں، تب جو دوسرے معاملے حکومت بھول جانا چاہتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھیں عوام کے لیے اور ملک کے لیے کام کرنا ہے۔ اس سے بھی خراب بات یہ ہے کہ لوگ خود ہی اپنا وہ حق چھوڑ دیتے ہیں جس کے مطابق ان کے ذریعہ منتخب لوگوں کو سچ معنوں میں لوگوں کے ہی مفادات کی نمائندگی کرنے کی امید ہوتی ہے۔ دو انتخابات کے درمیان پانچ سال کا فرق ایک قسم سے ’عوامی چھٹی‘ کی طرح ہو جاتا ہے۔
Published: undefined
حالانکہ یہ سخت الفاظ ہیں، لیکن اندھے شہری اور بہرے عوامی نمائندے مل جل کر آئین کا ایک طرح سے مذاق بنا رہے ہیں۔ ہماری جمہوریت گہری نیند میں ہے اور اسے از سر نو زندہ کرنے کے طریقں اور وسائل پر موجودہ حکومت نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
Published: undefined
بھارت جوڑو یاترا اس بات کے نشان دکھا رہی ہے کہ لوگ اس گہری نیند جیسے حالات سے دھیرے دھیرے باہر آ رہے ہیں۔ میڈیا نے اسے کم اہمیت دینے کی ہر طرح سے کوشش کی ہے، لیکن لاکھوں لوگ ہر روز اپنی مرضی سے اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ طویل یاترا جب 7 ستمبر کو شروع ہوئی تھی تب بیشتر پیشین گوئیاں منفی رہی تھیں۔ ان طبقات میں بھی جو آر ایس ایس و بی جے پی نظریات کے حامی نہیں ہیں۔ لیکن 3570 کلومیٹر کی پدیاترا کے پہلے نصف حصے کو یہ پورا کر رہی ہے، تو تصویر پوری طرح بدل گئی ہے۔ یاترا نے بڑی اخلاقی پونجی حاصل کر لی ہے۔ لوگوں نے یہ دیکھنا شروع کر دیا ہے کہ راہل گاندھی وہ نہیں ہیں جو بی جے پی کی پروپیگنڈہ مشینری نے انھیں دکھانا چاہا ہے۔ وہ اچھے دل والے، پرعزم، لوگوں کے تئیں ہمدردی رکھنے والے لیڈر ہیں جو سب کا پورا دھیان رکھتے ہیں۔ کوئی بچہ ان کے کندھے پر چڑھ سکتا ہے اور وہاں اچھا محسوس کر سکتا ہے، کوئی بوڑھی خاتون ان کا ہاتھ پکڑ سکتی ہے اور ان کے ساتھ عزت کے ساتھ چل سکتی ہے، خواتین ان کے نزدیک آ سکتی ہیں اور بڑے بھائی جیسی محبت محسوس کر سکتی ہیں۔ انھوں نے پوری طرح عوامی نظریے سے یہ شبیہ حاصل کی ہے جو کسی دوسرے کو کسی طرح کے پروپیگنڈہ سے حاصل نہیں ہو سکتا۔ میڈیا یا رائٹ وِنگ نظریہ سے متاثر مرید قبول کریں یا نہ کریں، راہل گاندھی آج ہندوستان کے عوامی منظرنامہ میں سب سے زیادہ پسند کی جانے والی شخصیت ہیں۔
Published: undefined
بھارت جوڑو یاترا سے ہر طبقے کے لوگ جڑ رہے ہیں... کیا طلبا، کیا کسان، کیا سماجی کارکنان، کیا مصنف، کیا فنکار اور فلمساز۔ مزدور بھی اپنے کام چھوڑ کر خود بہ خود یاترا کا حصہ بن رہے ہیں جب کہ انھیں روز کھانے کے لیے روز کمانا ہوتا ہے۔ یاترا میں غالباً سب سے زیادہ انتہائی پسماندہ طبقہ (او بی سی) کے لوگ ہیں۔ ظاہر ہے اس یاترا کا کانگریس کارکنان کے جوش پر بڑا ہی مثبت اثر پڑا ہے اور ان میں جیسے نئی جان آ گئی ہے۔ ایک عام کارکن کو سرکردہ قومی لیڈر سے ملنے کا موقع مل رہا ہے۔ اس لیے اس یاترا کا ایک سیاسی پہلو بھی ہے اور یہ خاص طور سے پارٹی کا حوصلہ بڑھانے والا عمل ہے۔
Published: undefined
راہل گاندھی نے اس یاترا کے ذریعہ اعلیٰ سطحی اخلاقیات والی سیاست کو فروغ دیا ہے۔ آج کے منظرنامہ میں اس طرح کی یاترا کا اہم مقصد ووٹ بینک کو اپنی طرف موڑنا ہوتا، لیکن راہل نے صاف ستھری سیاست کو پھر سے زندہ کیا ہے۔ مجموعی طور پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت، مفاد عامہ اور فیڈرل ڈھانچہ پر مبنی آئین کو زندہ رکھنے کی امید جگانے والی اس یاترا نے ہندوستانی سیاست میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔
(گنیش دیوی ماہر تعلیم اور ثقافتی کارکن ہیں۔)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز