سیاسی

مہاراشٹر: سروے کی سیاست

 شندے صاحب نے اپنے کارکنوں کے حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے زی نیوز میٹرائز کے سروے کا کھیل تو کھیلا، لیکن مارے ہڑبڑاہٹ کے سیلف گول کر بیٹھے۔

<div class="paragraphs"><p>ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس</p></div>

ایکناتھ شندے، تصویر آئی اے این ایس

 

مہاراشٹر میں آج کل سروے کی سیاست چل رہی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ سروے کی اس سیاست میں وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے ونائب وزیراعلیٰ دیوندرفڈنویس آمنے سامنے ہیں جو بارہا ’ہم بنے تم بنے ایک دوجے کے لیے‘ کا نعرہ لگاتے رہتے ہیں۔ ہوایوں کہ شندے صاحب نے زی نیوزمیٹرائز کے ایک سروے کا حوالہ دیتے ہوئے خود کو وزیراعلیٰ کے طور پر اکثریت کی سب سے بڑی پسند بتا دیا۔ شندے کی شیوسینا نے ریاست بھر کے تمام مراٹھی اخبارات میں پورے صفحے کا اشتہار دیتے ہوئے بینر وپوسٹر لگوا دیئے کہ مرکز میں مودی اور صوبے میں شندے سب سے زیادہ مقبول ہیں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں اگر بی جے پی وشندے کی شیوسینا کامیاب ہوتی ہے تو بی جے پی کو شندے ہی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بی جے پی کو قطعی پسند نہیں آئی۔ وہ تو بدرجۂ مجبوری شندے کو برداشت کر رہی ہے، سو اس دعوے اور اشتہار بازی کے بعد بی جے پی وشیوسینا میں ایسی سردجنگ شروع ہوگئی جو ہنوز جاری ہے۔

Published: undefined

بتایا جاتا ہے کہ زی نیوزمیٹرائز کا یہ سروے شندے کی شیوسینا کا اپنا کرایا ہوا ہے جس میں شندے صاحب کی مقبولیت 26 فیصدی بتائی گئی ہے۔ اس کے برخلاف فڈنویس کی مقبولیت کو 23 فیصد بتایا گیا۔ اس تین فیصد کے فرق کو ایکناتھ شندے اپنی سب سے زیادہ مقبولیت بتا رہے ہیں، جبکہ مقبولیت ناپنے والے اس سروے کو اگرحقیقی مان لیا جائے تو بھی اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ 74 فیصد لوگ نہیں چاہتے کہ ایکناتھ شندے وزیراعلیٰ بنیں۔ اب معلوم نہیں یہ نتیجہ کیسے نکال لیا گیا کہ مہاراشٹر کی اکثریت شندے کو وزیراعلیٰ دیکھنا چاہتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سروے کا کوئی سیمپل سائز نہیں بتایا گیا ہے یعنی کتنے لوگوں سے رائے لی گئی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ کرناٹک انتخابات سے قبل بھی اسی زی نیوزمیٹرائز کا ایک سروے آیا تھا جس میں بی جے پی کو 113؍ سے 118؍ سیٹیں دی گئی تھیں جبکہ کانگریس 82 سے 97 سیٹیں دی گئی تھیں۔ لیکن جب نتیجے آئے تو معلوم ہوا کہ یہ سروے بی جے پی کے حق میں ماحول سازی ایک کوشش تھی۔

Published: undefined

 لیکن یہ سروے دلچسپ تو اس وقت ہوگیا جب شندے نے مہاراشٹر بھر میں ’راشٹر میں نریندر اور مہاراشٹر میں شندے سرکار‘ کا بینرلگوا دیا۔ بس پھر کیا تھا؟ بھانومتی کا پٹارہ کھل گیا۔ ممبئی سے لے کر دہلی تک بی جے پی میں کھلبلی مچ گئی کہ آخر مینڈکی کو زکام کیسے ہوگیا؟ بی جے پی کی مرکزی قیادت کی جانب سے شندے کو ڈانٹ پلائی گئی کہ وہ لکشمن ریکھا کو پار نہ کریں یعنی فڈنویس کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ فڈنویس یا ریاستی بی جے پی کے صبر کا امتحان نہ لیا جائے کیونکہ شندے کو وزیراعلیٰ کا عہدہ دینے کے لیے فڈنویس و بی جے پی لیڈروں نے اپنے سینے پر پتھر رکھ لیا تھا۔ بی جے پی کے سابق ریاستی صدر چندرکانت پاٹل نے تو باقاعدہ ایک پروگرام میں اعلانیہ کہہ بھی دیا تھا کہ ہم نے اپنے سینوں پر پتھر رکھ کر شندے کو وزیراعلیٰ بنایا ہے۔ لیکن آدمی کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ جب اسے کھڑے ہونے کی جگہ مل جاتی ہے تو وہ بیٹھنے کی جگہ تلاش کرتا ہے اور جب بیٹھنے کی مل جائے تو سونے کی۔ سو شندے صاحب سونے کی جگہ ملنے کے بعد اب اس جگہ پر ہی اپنی ملکیت جتانے لگے۔

Published: undefined

جمہوری طرزِ حکومت کا ایک وصف یہ بھی ہوتا ہے کہ موقع پرستی قبولیت عام کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اس کے بعد ہوتا یہ ہے کہ مروت ولحاظ کا پانی مرجاتا ہے اور صاحبِ اقتدار اپنے احسان مندوں کو بھی اپنے پیروں تلے کچلنے سے گریز نہیں کرتا۔ یہی شندے صاحب تھے جو بغاوت کے بعد نائب وزیراعلیٰ کے عہدے کے متمنی تھے اور بی جے پی کو ’مہاشکتی‘ کہا کرتے تھے۔ لیکن جب انہیں ان کی توقع سے بڑھ کر وزیراعلیٰ کا عہدہ مل گیا تو ان کے بھی اندر کا مروت ولحاظ کا پانی مرگیا۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اپنے چالیس باغی ایم ایل ایز کے ذریعے مہاراشٹر کا قلعہ فتح کرلیں گے اور اس مہاشکتی کو پچھاڑ دیں گے جس کی انگلی پکڑ کر وہ سورت، گوہاٹی اور گوا تک اپنی غول بندی کرتے رہے۔ لیکن یہ نہیں سمجھ سکے کہ جو بی جے پی انہیں سر پر بٹھا سکتی ہے، وہ انہیں اتار بھی سکتی ہے اور پھر اس صورت میں ان کی حالت راج ٹھاکرے سے بھی زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔ شندے صاحب اپنی مقبولیت کے اشتہار میں اگر فڈنویس کو بھی شامل کر لیتے تو بھی وہ اس تضحیک سے بچ جاتے جو ڈیمیج کنٹرول کے نام پر مذکورہ اشتہار کے دوسرے روز اخبارات میں شائع ہوئے جس میں شندے وفڈنویس کو دونوں کو مقبول بتایا گیا۔

Published: undefined

اس ڈیمیج کنٹرول کے طور پر شندے کے اشتہار کے دوسرے روز اسی طرح مراٹھی اخبارات میں ایک اور اشتہار شائع ہوا، جس میں کسی سروے کے حوالے سے کہا گیا کہ مہاراشٹر کے 49.3 فیصد رائے دہندگان بی جے پی وشیوسینا کو پسند کرتے ہیں۔ اس میں کہا گیا کہ 84 فیصد رائے دہندگان اس بات سے متفق ہیں کہ نریندرمودی کی قیادت نے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کیا ہے اور 62 فیصد مانتے ہیں کہ ڈبل انجن کی سرکار ریاست میں تیزی سے ترقیاتی کام کر رہی ہے۔ اس نئے اشتہار میں شندے کے سیاسی گرو آنند دیگھے کے ساتھ بال ٹھاکرے اور فڈنویس کی بھی تصویر ہے۔ جبکہ پہلے اشتہار میں شندے صاحب کے اکیلے کی تصویر تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نئے اشتہار میں نہ تو یہ بتایا گیا کہ سروے کس نے کیا ہے اور اس کا سیمپل سائز کیا ہے۔ شاید یہی وجہ رہی کہ این سی پی کی کارگزار صدر سپریا سولے نے اس سروے کے حقیقی ہونے پر ہی سوال اٹھا دیا۔ انہوں نے کہا کہ سروے کس نے کیا اور اس کا سیمپل سائز کیا تھا؟ کم ازکم یہ تو بتا دیا جاتا؟ انہوں نے آگے کہا کہ ’میں ان خیرخواہوں کی تلاش میں ہوں جنہوں نے اخبارات میں کروڑوں روپئے کے اشتہار دیئے۔ مجھے لگتا ہے کہ آج کا ڈیزائن دہلی سے آیا ہے اور اس امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا‘۔

Published: undefined

ان دنووں سروے اور ان کے نام پر کھیلے جانے والے اشہتارات سے قبل گزشتہ ماہ 29مئی کو ایک حقیقی سروے میں بھی آیا تھا جسے مراٹھی کے ایک بڑے اخبار’سکال‘ اور ’سام ٹی وی‘ نے کیا تھا۔ اس سروے کا سیمپل سائز 50 ہزار تھا جس میں ریاست کے تمام پارلیمانی واسمبلی حلقوں میں سے 32فیصد عورتوں کی رائے لی گئی تھی۔ اس سروے میں بی جے پی کو 33.8 فیصد اور شندے کی شیوسینا کو محض 5.5 فیصد لوگوں کی پسند بتائی گئی تھی۔ اس سروے میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اگر فی الوقت یا 6 ماہ کے اندر ریاست میں انتخابات ہوجاتے ہیں تو مہاوکاس اگھاڑی دوبارہ برسرِ اقتدار آجائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ سروے شندے کی شیوسینا کی مایوسی کو بڑھانے والا تھا، اس لیے ان کا حوصلہ بنائے رکھنے کے لیے زی نیوزمیٹرائز کے سروے کا سہارا لیا گیا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ کوئی بھی کھیل ہو، اس کو ہوشیاری سے کھیلا جانا چاہئے۔ شندے صاحب نے اپنے کارکنوں کے حوصلے کو برقرار رکھنے کے لیے زی نیوزمیٹرائز کے سروے کا کھیل تو کھیلا لیکن مارے ہڑبڑاہٹ کے سیلف گول کر بیٹھے۔ اب ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو اپنی اصل شیوسینا ثابت کرنے میں پوری توانائی لگائیں، سو آج کل وہ وہی کر رہے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined