رواں لوک سبھا انتخابات سیاسی پارٹیوں کی ساکھ سے جڑے ہوئے ہیں۔ پیلی بھیت لوک سبھا حلقہ پر تو کئی لوگوں کی نظر ہے جہاں سے بی جے پی ایک نئے چہرے کے ساتھ میدان میں اتری ہے۔ یہ سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے لیے ترائی میں سیاسی میدان فتح کرنے کا ایک بہترین موقع ہے۔ یہ ساڑھے تین دہائیوں میں پہلا الیکشن ہے جب مینکا گاندھی یا ورون گاندھی پیلی بھیت سیٹ سے انتخاب نہیں لڑ رہے ہیں۔ 2019 لوک سبھا انتخابات تک پیلی بھیت لوک سبھا حلقہ سے سنجے گاندھی کنبہ کا کوئی نہ کوئی فرد انتخاب لڑتا رہا ہے، جس کی وجہ سے سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کے امیدوار بڑے فرق سے انتخاب ہارتے رہے ہیں۔
Published: undefined
2019 میں ورون گاندھی نے بی جے پی کی ٹکٹ پر پیلی بھیت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس مرتبہ بی جے پی نے ورون کا ٹکٹ کاٹ کر یہاں سے تعمیرات عامہ کے کابینی وزیر جتن پرساد کو امیدوار بنایا ہے۔ ان کا پیلی بھیت سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے، اور وہ پہلی بار یہاں سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں اگر اس بار بھی سائیکل نے رفتار نہ پکڑی اور ہاتھی آہستہ آہستہ ہی چلتا رہا تو طے ہے کہ دونوں پارٹیوں کی سیاست پر اس کا بڑا اثر پڑے گا۔ اس سے قبل تک پیلی بھیت لوک سبھا سیٹ مینکا گاندھی یا ورون گاندھی کی وجہ سے ہائی پروفائل رہی ہے۔ جب بی جے پی اقتدار سے دور رہی تب بھی لوک سبھا انتخابات میں مینکا گاندھی یا ورون گاندھی کو پیلی بھیت سیٹ سے اپنے امیدوار کے طور پر ہمیشہ کھڑا کر کے جیت درج کی ہے۔
Published: undefined
پیلی بھیت میں سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی امیدوار کبھی بھی لوک سبھا الیکشن نہیں جیت پائے ہیں۔ ریاست اور ضلع کی بیشتر اسمبلی سیٹوں پر اپنے ایم ایل اے، ضلع پنچایت صدر اور کئی عوامی نمائندے ہونے کے باوجود، چاہے وہ بی ایس پی ہو یا ایس پی، وہ کبھی بھی اپنا رکن پارلیمنٹ نہیں بنا پائے۔ 2007 میں اتر پردیش میں بہوجن سماج پارٹی کی حکومت تھی۔ ضلع کی دو اسمبلی سیٹوں بیسل پور اور پورنپور میں بی ایس پی کے اراکین اسمبلی منتخب بھی ہوئے تھے اور بی ایس پی نے ضلع پنچایت صدر کی کرسی بھی سنبھالی تھی، لیکن 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی کو صرف 13.5 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اس وقت ورون گاندھی نے 419539 ووٹ لے کر یہ الیکشن جیتا تھا۔ 2009 میں بی ایس پی امیدوار گنگاچرن راجپوت کو صرف 112576 ووٹ مل سکے تھے، جبکہ سماجوادی پارٹی امیدوار حاجی ریاض احمد کو 1 لاکھ 17 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل ہوئے تھے، جو کہ تقریباً 14 فیصد ہوتے ہیں۔
Published: undefined
سماجوادی پارٹی کی بات کریں تو وہ 2012 میں ریاست میں برسر اقتدار ہوئی تھی۔ تب ضلع کی چار میں سے تین سیٹوں پر سماجوادی پارٹی کے ایم ایل اے منتخب ہوئے۔ لیکن جب 2014 میں لوک سبھا کے انتخابات ہوئے تو کچھ خاص کارکردگی دیکھنے کو نہیں ملی۔ تب پیلی بھیت سیٹ سے بی جے پی کی مینکا گاندھی نے 546934 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس الیکشن میں سماجوادی پارٹی کے بدھ سین ورما کو صرف 239882 ووٹ مل سکے، جبکہ بہوجن سماج پارٹی کے انیس احمد خان عرف پھول بابو کو 196294 ووٹ ملے تھے اور وہ تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں بھی بہوجن سماج پارٹی نے پیلی بھیت سے انہیں اپنا امیدوار بنایا ہے۔
Published: undefined
اگر ہم کچھ اور پیچھے کی بات کریں تو 1999 کے لوک سبھا انتخابات میں مینکا گاندھی نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑا تھا۔ اس وقت بھی ایس پی-بی ایس پی ہار گئی تھی۔ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑتے ہوئے مینکا گاندھی نے 433421 ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی تھی۔ بی ایس پی کے انیس احمد خان عرف پھول بابو 193566 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے اور سماجوادی پارٹی کے رام سرن کو صرف 58792 ووٹ مل سکے تھے۔ 2004 لوک سبھا انتخابات کی بات کریں تو مینکا گاندھی نے بی جے پی کے نشان پر الیکشن لڑا تھا اور 255415 ووٹ حاصل کر فتحیاب ہوئی تھیں۔ اس الیکشن میں سماجوادی پارٹی کے ستیہ پال گنگوار 152895 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے جبکہ بی ایس پی کے انیس احمد خان عرف پھول بابو 121269 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔ ان انتخابات میں بھی سائیکل نہیں چلی اور ہاتھی بھی سست رہا۔
Published: undefined
ویسے تو پرانے انتخابی اعداد و شمار جو بھی رہے ہوں، لیکن 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں تصویر کافی حد تک بدل گئی ہے۔ بی جے پی کی طرح سماجوادی پارٹی امیدوار بھاگوت سرن گنگوار پہلی بار پیلی بھیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ بی ایس پی کے صرف انیس احمد خان عرف پھول بابو ایک پرانا چہرہ ہیں۔ حالانکہ وہ بی ایس پی سے پیلی بھیت سیٹ پر تین بار لوک سبھا الیکشن لڑ چکے ہیں اور ایک بار بھی جیت درج نہیں کر سکے۔ ایسے میں تینوں پارٹیاں ووٹرس کے درمیان اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
Published: undefined
سچائی تو یہی ہے کہ پیلی بھیت لوک سبھا سیٹ پر ایس پی-بی ایس پی کبھی بھی جیت درج نہیں کر پائی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اس سیٹ پر بی جے پی کی جیت کو روکنے اور لوک سبھا انتخابات میں جیت کا کھاتہ کھولنے کا مقصد 2019 میں بھی حاصل نہیں ہو سکا جب ایس پی-بی ایس پی کا اتحاد تھا۔ سماجوادی پارٹی نے اس الیکشن میں سابق وزیر ہیمراج ورما کو اپنا امیدوار بنایا تھا جو اس وقت بی جے پی میں شامل ہو چکے ہیں۔ اتحادی امیدوار کے طور پر انہوں نے 448922 ووٹ حاصل کیے، لیکن جیت نہ سکے۔ بی جے پی کے ورون گاندھی نے 2019 میں 704549 ووٹ حاصل کرنے کے بعد 255627 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی۔ اس بار الیکشن میں دونوں پارٹیاں الگ الگ لڑ رہی ہیں۔ اگرچہ سماجوادی پارٹی کو کانگریس سمیت انڈیا اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل ہے۔ اب یہ ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، یہ دیکھنا باقی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined