ڈی ایم کے اسے ’حیرت انگیز‘ امر کہتی ہے، اے آئی اے ڈی ایم کے اسے ’دھوکہ‘ قرار دیتی ہے، جبکہ پی ایم کے (پٹالی مکال کاچی) کے کارکنان مایوس ہیں اور سیاسی مبصرین حیرت زدہ ہیں۔ یہاں بات ہو رہی ہے لوک سبھا انتخاب کے لیے تمل ناڈو میں پی ایم کے اور بی جے پی کے درمیان ہوئے اتحاد کی۔
Published: undefined
پی ایم کے نے بالکل آخر وقت میں تمل ناڈو میں این ڈی اے اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا، جبکہ ریاست میں حزب مخالف پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے نے اپنے اتحاد کے دروازے سابقہ ساتھی کے لیے کھول رکھے تھے۔ پی ایم کے 2019 کے لوک سبھا انتخاب اور 2021 کے اسمبلی انتخاب میں اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد کا حصہ تھی جس میں دیگر شراکت دار ڈی ایم ڈی کے اور بی جے پی تھے۔
Published: undefined
پی ایم کے فیصلے نے کئی طرح کی قیاس آرائیاں پیدا کر دی ہیں۔ پی ایم کے کو دو اہم دراوڑ پارٹیوں کے درمیان کبھی اِدھر کبھی اُدھر کا رخ کرنے کے لیے جانا جاتا رہا ہے۔ سیاسی موقع پرستی کے تحت یہ 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں این ڈی اے کا حصہ بنی تھی جس میں ڈی ایم ڈی کے اور وائیکو کی ایم ڈی ایم کے بھی تھی۔
Published: undefined
جئے للیتا نے وہ انتخاب ’مودی یا لیڈی‘ کے نعرے پر جیتا تھا اور ان کی پارٹی کو 39 میں سے 37 سیٹیں ملی تھیں۔ ڈاکٹر ایس رام داس کے بیٹے ڈاکٹر امبومنی رام داس نے دھرم پوری انتخابی حلقہ سے الیکشن جیتا تھا۔ وہ 2019 میں ہار گئے اور اب ان کی بیوی سومیا وہاں سے امیدوار ہیں۔
Published: undefined
تمل ناڈو میں بی جے پی کو تمل ناڈو مخالف، تمل مخالف اور اقلیت مخالف مانا جاتا ہے۔ پارٹی کا ’ایک ملک، ایک زبان، ایک ثقافت‘ کا ایجنڈہ تمل ناڈو کے ووٹرس کو تذبذب میں ڈالتا ہے۔ اپنی لیڈر جئے للیتا کی موت کے بعد بھگوا پارٹی کے ساتھ تال میل بٹھانے کے باوجود اے آئی اے ڈی ایم کے نے الیکشن سے پہلے بی جے پی کو اپنے اتحاد سے باہر کر دیا جس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی کے ساتھ جانے سے پارٹی کو اقلیت اور دلت ووٹوں کا زبردست نقصان ہوتا۔ بی جے پی جب اس جھٹکے سے مایوسی میں تھی، تبھی پی ایم کے اتحاد کے لیے تیار ہو گئی۔ شمالی ضلعوں میں پی ایم کے مضبوط ہے اور اس سے بی جے پی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔
Published: undefined
سوال اٹھتا ہے کہ جب مین اسٹریم کی پارٹیاں بھی بی جے پی سے اتحاد کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو پی ایم کے اعلیٰ کمان کا اچانک من بدلنے کی وہج کیا ہے؟ کیا تمل ناڈو کے ذات پر مرکوز محاذ پر پی ایم کے کے لیے یہ متبادل سے زیادہ مجبوری تھی؟
Published: undefined
پی ایم کے کی طاقت شمالی ضلعوں میں اس کی ذات پر مبنی سیاست رہی ہے جہاں سب سے زیادہ پسماندہ ذات (ایم بی سی) فہرست میں شامل ونّیار بہت اثر انداز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈی ایم کے اور اے آئی اے ڈی ایم کے جیسی پارٹیاں پی ایم کے کو اپنی طرف رکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ دوسری طرف 1970 کی دہائی میں ایک ذات پر مبنی پارٹی کی شکل میں شروع ہوئی اور پھر 1980 کی دہائی میں ایک علاقائی کھلاڑی کی شکل میں ابھری پی ایم کے کی موجودگی پورے تمل ناڈو میں نہیں ہے اور سیاسی جواز کے لیے اسے کسی اہم پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا پڑتا ہے۔ پی ایم کے کا ووٹ شیئر لگاتار تقریباً 5 فیصد رہا ہے، بھلے ہی وہ جس اتحاد میں ہو وہ جیتے یا ہارے۔ دوسری طرف بی جے پی کا ووٹ شیئر 4 فیصد کے آس پاس برقرار ہے۔ اپنے تمام داخلی مسائل کے باوجود اے آئی اے ڈی ایم کے نے سبھی انتخابات میں 35 فیصد ووٹ شیئر برقرار رکھا ہے۔
Published: undefined
بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے صدر کے. انّاملائی اور ان کی ٹیم کا ماننا ہے کہ پارٹی کو تقریباً 18 فیصد ووٹ ملیں گے لیکن کسی ٹھوس ڈاٹا یا تجزیہ کی عدم موجودگی میں یہ صرف امیدوں پر کھڑی کی گئی تعداد ہے۔ اس لیے سوال اٹھتا ہے کہ پی ایم کے کی قیادت کو اس پارٹی کے ساتھ جانے کا جوا کیوں کھیلنا پڑا جس نے ابھی تک ریاست میں قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔
Published: undefined
تمل ناڈو میں جیت کے لیے کسی بھی اتحاد کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ شیئر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈی ایم کے اتحاد نے 2021 اسمبلی انتخاب میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے 38.17 فیصد کے مقابلے 45.38 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ جیت حاصل کی تھی۔ 2019 کے لوک سبھا انتخاب میں ڈی ایم کے اتحاد نے اے آئی اے ڈی ایم کے کے 30.57 فیصد کے مقابلے 53.15 فیصد ووٹ حاصل کر کے 39 میں سے 38 سیٹیں جیتیں۔ تب اے آئی اے ڈی ایم کے نے صرف ایک سیٹ جیتی تھی۔
Published: undefined
کوئمبٹور، کنیاکماری اور رامناتھپورم میں اپنی گزشتہ کارکردگی کی بنیاد پر بی جے پی اس مرتبہ بہتر کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے، جبکہ پی ایم کے کے پاس شمالی ضلعوں کے باہر کوئی حمایت نہیں ہے۔ اس طرح جبکہ بی جے پی کا ووٹ شیئر پی ایم کے کے سبب بڑھ سکتا ہے، لیکن پی ایم کے کو اتحاد میں رہنے سے کوئی فائدہ ملنے کا امکان نظر نہیں آتا۔
Published: undefined
ایک منظور شدہ علاقائی پارٹی ہونے کے باوجود پی ایم کے کے پاس اداکار سے لیڈر بنے سیمان کی ’نام تمیلر کاچی‘ (این ٹی کے) کے مقابلے میں کم ووٹ شیئر ہے۔ این ٹی کے کو عام طور پر انتخابات میں پورے تمل ناڈو میں تقریباً 8 فیصد ووٹ ملتا ہے۔ پی ایم کے کا فائدہ شمالی ضلعوں میں اس کی مضبوط موجودگی ہے جن میں ریاستی اسمبلی کی مجموعی طور پر 234 سیٹوں میں سے تقریباً 90 سیٹیں ہیں اور یہی بات پی ایم کے کو کسی بھی اتحاد کے لیے اہم بناتی ہے۔ این ٹی کے تنہا ہی لڑنا پسند کرتی ہے۔ دراصل بی جے پی اب تمل ناڈو کی سیاست میں این ٹی کے کی جگہ چاہتی ہے اور اس کی نظر اس کے 8 فیصد ووٹ شیئر پر ہے۔
Published: undefined
پی ایم کے کی قیادت نے ابھی تک اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد سے ناطہ توڑنے کے اپنے فیصلے کی کوئی بھروسہ مند وجہ نہیں بتائی ہے۔ ایک پریس کانفرنس میں امبومنی اور رام داس نے دعویٰ کیا کہ انھیں اے آئی اے ڈی ایم کے سے الگ ہونا پڑا کیونکہ پارٹی نے ایم بی سی کوٹہ کے اندر ونّیاروں کے لیے 10.5 فیصد ریزرویشن کے مطالبہ پر دھیان نہیں دیا۔ انھوں نے کہا کہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ای کے پلانی سوامی نے بالکل بعد میں قانون ضرور پاس کیا تھا، لیکن اب یہ قانونی جھنجھٹ میں الجھ گیا ہے۔ اس کے علاوہ 2019 و 2021 میں اے آئی اے ڈی ایم کے کے ساتھ اتحاد سے پی ایم کے کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جبکہ ہمارے ووٹ اے آئی اے ڈی ایم کے اور دیگر ساتھیوں کو منتقل ہو گئے، ان کے ووٹ پی ایم کے کو منتقل نہیں ہوئے۔ یہ دھوکہ ہے۔
Published: undefined
لیکن یہ وجہ پارٹی کے کارکنان کے گلے نہیں اتر رہی۔ چدمبرم میں نقلی زیورات کی صنعت میں کام کرنے والے پی ایم کے کے پُرجوش کارکن سریش کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی کے کئی ساتھی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرنے سے متعلق قیادت کے فیصلے سے ناخوش ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’اگر پارٹی اے آئی اے ڈی ایم کے اتحاد میں لوٹ آتی تو ڈی ایم کے محاذ کے خلاف لڑائی قریبی ہو جاتی۔‘‘ ودُتھلائی چروتھیگل کاچی (وی سی کے) لیڈر تھول تھروماولون ریزرو انتخابی حلقہ چدمبرم سے ڈی ایم کے اتحاد کے امیدوار ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی یہ مان رہی ہے کہ اسے ریاست میں 18 فیصد ووٹ شیئر ملے گا، لیکن اس کی حمایت میں اس کے پاس کوئی ریسرچ یا سائنس نہیں ہے، نہ ہی پی ایم کے اس طرح کے اعداد و شمار پر یقین کرتی ہے، حالانکہ اسے ملک میں دیگر مقامات پر بی جے پی کی مضبوطی کو دیکھ کر یہ امید ہو گئی ہے کہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا اسے بھی فائدہ ہوگا۔ بی جے پی کو اس انتخاب میں میدان میں اترنے کے لیے امیدوار ڈھونڈنے میں کافی جدوجہد کرنی پڑی ہے۔ وہ جانے پہچانے چہرے چاہتی تھی، اس لیے تملسائی سندرراجن کو تلنگانہ اور پڈوچیری کے گورنر عہدہ سے استعفیٰ دینا اور جنوبی چنئی سے انتخاب لڑنا پڑا۔ اس نے راجیہ سبھا رکن ایل مروگن کو نیلگری ریزرو انتخابی حلقہ سے انتخاب لڑنے کے لیے کہا ہے۔ اس نے ترونیلویلی کے میدان میں تمل ناڈو اسمبلی کے اپنے لیڈر اور رکن اسمبلی نینار ناگیندرن کو اتارا ہے۔
Published: undefined
ریاستی پارٹی صدر انّاملائی نے صاف کر دیا تھا کہ وہ انتخاب نہیں لڑنا چاہیں گے بلکہ ریاست کا دورہ کرنا چاہیں گے۔ لیکن بی جے پی نے انھیں کوئمبٹور سیٹ سے میدان میں اتارا ہے۔ گزشتہ زمانے کی اداکارہ رادھیکا سرتھ کمار، ماہر تعلیم اے سی شنموگن اور میڈیا شخصیت و صنعت کار پریویندھر کو بھی پارٹی نے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔ دلت لیڈر اور تمیزاگا مکال منیتر کژگم کے بانی جان پانڈین بھی اتحاد کے امیدوار ہیں۔ بی جے پی کی تمل ناڈو یونٹ کا ماننا ہے کہ یہ چہرے دراوڑ پارٹیوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
اس میں شبہ نہیں کہ شناخت کی سیاست نے پی ایم کے کی مدد کی ہے، لیکن اس بار کے فیصلے کو دیکھ کر تو پی ایم کے کے 10 امیدوار موقع پرست سیاست کی بھینٹ چڑھائے گئے بلی کے بکرے جیسے نظر آ رہے ہیں۔
(ایلانگووَن راج شیکھرن کا یہ مضمون انگریزی ویب سائٹ frontline.thehindu.com پر شائع ہوا تھا جس کا اردو میں یہاں ترجمہ پیش کیا گیا ہے)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined