نتائج کے دن جیسا ہوتا ہے ویسا ہی پورے ملک میں ماحول نظر آیا۔ جیتنے والی پارٹی اور امیدواروں کے دفاتر اور گھروں میں جشن تو شکست سے رو برو ہونے والی پارٹی اور امیدواروں کے دفاتر اور گھروں میں زبردست مایوسی۔ نتائج نے ایک دم سب کو حیران اس لئے نہیں کیا کیونکہ ایگزٹ پول کے نتائج نے پہلے سے ہی سب کو کسی حد تک ذہنی طور پر تیار کر دیا تھا، لیکن پھر بھی حقیقی نتائج پر رد عمل تو آنا ہی تھا۔ بی جے پی مخالف پارٹیوں کے دفاتر میں جیسے مایوسی تھی ویسا ہی کچھ حال مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی تھا۔ لوگوں کے منہ پر یہ سوال عام تھے کہ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے ؟ زمین پر تو ایسا نظر نہیں آ رہا تھا ؟ کیا یہ ای وی ایم کا کھیل ہے؟
Published: undefined
مسلمانوں نے جہاں بہت سمجھداری سے اپنی رائے کا اظہار کیا وہیں سیاسی پارٹیوں نے بھی مودی کی قیادت والی بی جے پی کو ہرانے کے لئے اپنے سیاسی اختلافات کو بھول کر اتحاد کیا اور بہت جارحانہ طریقہ سے چناؤ لڑا۔ اس وجہ سے انہوں نے یہ ذہن بنا لیا تھا اور ان کو یہ امید بھی تھی کہ مودی کے لئے راہ اتنی آسان نہیں ہو گی۔ لیکن نتائج نے ان کو پوری طرح چونکا دیا۔مندرجہ بالا وجوہات کی بنیاد پر مسلمان ایگزٹ پول پر یقین کرنے کے لئے تیا ر نہیں تھے لیکن کہیں نہ کہیں ایک خوف تھا، اس لیے انہوں نے دعائیں بھی بہت کیں۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کے پیغامات خوب گردش کر رہے تھے کہ رمضان المبارک میں اگر یہ دعا مانگیں گے تو نتائج ایسے نہیں آئیں گے جیسے آپ ایگزٹ پول میں دیکھ رہے ہیں۔
Published: undefined
بہر حال، مسلمانوں نے ووٹنگ بہت دانشمندی سے کی اور کسی بھی صورت میں بی جے پی کے خلاف اپنا ووٹ تقسیم نہیں ہونے دیا اور دعائیں بھی بہت مانگیں یعنی مسلمانوں نے اپنا کام پوری دانشمندی اور ایمانداری سے کیا، لیکن پھر بھی نتائج ایسے آئے جو اس کی امید اور توقع کے پوری طرح خلاف تھے۔ نتائج کا پوسٹ مارٹم کیا جا سکتا ہے،کیا جا رہا ہے اور ہر شخص اپنی رائے بھی دے رہا ہے۔ مودی کاجادو، مودی حکومت کے منصوبے، حزب اختلاف کی ناکام انتخابی حکمت عملی، مودی کے سامنے کسی ایک چہرے کو پیش نہ کرنے سے لے کر گھر میں گھس کر مارنے تک ہر موضوع پر مبصرین اور عوام اپنی رائے دے رہے ہیں۔
Published: undefined
ان نتائج کے پیچھے یہ تمام وجوہات بھی ہیں لیکن اقلیتوں کی حکمت عملی اور اتحاد کو شکست دینے کے لئے شمالی ہندوستان کا اکثریتی طبقہ اپنی پریشانیاں، عوام مخالف سرکاری فیصلہ اور ذات پات کے اپنے اختلافات کو نظر انداز کر کے متحد ہو گیا۔ یعنی اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ مسلمان چاہے جس پارٹی کی حمایت کریں، چاہے کتنی بھی دانشمندی سے ووٹنگ کر لیں لیکن ملک کا ماحول یہ ہو گیا ہے کہ ملک کے اکثریتی طبقہ کو ایک چھتری کے نیچے کھڑا کر کے باقی تمام پارٹیوں اور طبقوں کی حیثیت کو ختم کرنا ہے۔ اسی سوچ کی وجہ سے ملک کا ایک بڑا طبقہ ملک کی مین اسٹریم سے خود کو الگ محسوس کر رہا ہے۔
Published: undefined
جب اللہ تعالی کی بارگاہ میں بھی مسلمانوں کی دعائیں قبول نہ ہوں اور سیاسی طور پر بھی اس کی ہر کوشش ناکام ہو رہی ہو تو ایسی صورتحال میں بیچارہ مسلمان کیا کرے۔مسلمان اپنی پارٹی کی بات نہیں کرتا، اپنے امیدوار کی بات نہیں کرتا پھر بھی اس کے نام پر اکثریتی طبقہ اپنے مسائل کو دفن کرنے کے لئے تیار ہے اور ہر طرح کی پریشانی برداشت کرنے کو تیار ہے۔ یہ انتہائی تشویشناک صورتحال ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ اس کو ووٹنگ کیسی کرنی ہوگی اور فرقہ پرست قوتوں کو کیسے شکست دینی ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مسلم دانشور آگے آئیں اور مستقبل کے لئے حکمت عملی تیار کریں تاکہ سماج میں ان کی حیثیت برقرا ر رہے۔ مایوسی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پچھلی بار کے مقابلہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ ہوا ہے اور اتر پردیش جہاں سے پچھلی لوک سبھا میں ایک بھی مسلم امیدوار نہیں تھا، وہاں سے اس مرتبہ چھ مسلم امیدوار ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined