سیاسی

کیوں نہ کہوں: حکمراں کا اگر کوئی مذہب ہونا چاہیے تو صرف ملک کے عوام کی فلاح و بہبود...سید خرم رضا

لال قلعہ کو دیکھ کر یہ احساس مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ بادشاہوں کی طاقت اور نجومیوں کا علم سب دھرا رہ جاتا ہے۔ اس لئے میں کیوں نہ کہوں کہ حکمراں کا اصلی علم اور حقیقی عبادت عوام کی فلاح و بہبود ہی ہے۔

پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے ’بھومی پوجن‘ کرتے وزیر اعظم نریندر مودی / تصویر یو این آئی
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے ’بھومی پوجن‘ کرتے وزیر اعظم نریندر مودی / تصویر یو این آئی 

کل کسی صاحب سے ملاقات کی غرض سے اس عمارت میں جانے کا اتفاق ہوا جو سترہویں صدی سے آج تک ہندوستان پر حکومت کی ایک علامت ہے۔ آج بھی 15 اگست کے لال قلعہ سے وزیر اعظم کے خطاب کو سب سے بڑے اعزاز کے طور پر ہی دیکھا جاتا ہے۔ لال قلعہ کو پانچویں مغل بادشاہ شہاب الدین محمد خرم یعنی شاہجہاں نے جمنا ندی کے نزدیک تعمیر کروایا تھا، فن تعمیر کے اس بہترین شاہکار کو تعمیر ہونے میں دس سال کا وقفہ لگا تھا۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

لال قلعہ کے دیوان خاص میں تخت طاؤس واقع ہے جہاں بیٹھ کر مغل بادشاہ ہندوستان کے طول و عرض پر حکومت کرتے تھے اور یہ سلسلہ 1857 میں اس وقت تک چلا جب تک انگریزوں نے اس وقت کے اور آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اس قلعہ سے بے دخل نہیں کر دیا۔ اس کے بعد سے 1947 تک لال قلعہ پر انگریزی فوج کا قبضہ رہا اور 1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد سے ہر سال یوم آزادی کے موقع پر ہماے ملک کے وزیر اعظم اسی لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کرتے ہیں۔ لال قلعہ اب عالمی اثاثوں کے لیے اقوام متحدہ کی تنظیم برائے ثقافت، یونیسکو کی فہرست میں شامل ہے اور دہلی میں آنے والے سیاحوں کے لئے ایک بہت اہم، تاریخی اور خوبصورت سیاحتی مقام ہے۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

دہلی کا لال قلعہ / Getty Images

شاہجہاں جو 1628 میں تخت نشین ہوئے تھے انہوں نے لال قلعہ کی تعمیر مغل سلطنت کے بڑھتے دائرے کی وجہ سے کیا تھا اور اس کی تعمیر کیسی ہو اس کے لئے ماہرین نے تو مدد کی ہی تھی لیکن کہاں پر تعمیر ہو اس کا انتخاب اس وقت کے نجومیوں کے مشورے پر کیا گیا تھا اور ظاہر ہے نجومیوں نے اس جگہ کو اس لئے ہی انتخاب کیا تھا کیونکہ انہوں نے انتخاب سے قبل اپنے علم کے ذریعہ یہ جانا ہوگا کہ یہ جگہ مغل سلطنت کی توسیع اور استحکام کے لئے سب سے موضوع ترین جگہ ہے، لیکن یہ مقام اور جگہ کسی کی سگی نہیں ہوئی۔ کبھی جس قلعہ میں بیٹھ کر مغل بادشاہ حکومت کیا کرتے تھے آج اس قلعہ کی فصیل سے ملک کے وزیر اعظم کے خطاب کو حکمرانی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ لال قلعہ فن تعمیر کا تو اعلی ترین نمونہ ہے ہی، لیکن بادشاہوں اور ان کے مہمانوں کی ضرورت اور دلچسپی کا بھی اس قلعہ میں خاص انتظام ہے۔ ظاہر ہے شاہجہاں نے جب یہ قلعہ تعمیر کروایا تھا تو ان کے ذہن میں دور دور تک یہ خیال بھی نہیں رہا ہوگا کہ اس پر کچھ سالوں بعد انگریزوں کا قبضہ ہوگا اور اس کے بعد یہ ایک آزاد ملک کا حصہ ہوگا۔ اپنے دور میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے یہاں عبادت کے لئے موتی مسجد کے نام سے ایک مسجد تعمیر کروائی تھی جس میں وہ خود بھی عبادت کرتے تھے اور محل کی مذہبی خواتین بھی عبادت کرتی تھیں۔ اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ مسلم خواتین ہمیشہ سے مسجدوں میں جاتی رہی ہیں اور یہ ایک پروپیگنڈا ہے کہ مسلم خواتین کو مسجدوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی ہے۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

اورنگزیب نے اپنے دور میں عبادت کی غرض سے قلعہ میں مسجد تعمیر کروائی، لیکن مغل سلطنت کا زوال اورنگزیب کے دور سے ہی باقائدہ شروع ہوگیا تھا۔ یہ مورخین کے لئے تو ایک موضوع ہوسکتا ہے کہ اورنگزیب کے مذہبی ہونے کی وجہ سے مغلیہ دور کا زوال شروع ہوا یا زوال شروع ہونے کی وجہ سے مغل بادشاہ مذہبی ہوئے۔ وجہ کچھ بھی رہی ہو لیکن حکومت کرنے کے اپنے تقاضے اور نکات ہوتے ہیں اور کوئی بھی حکمراں چاہے وہ مذہبی ہو یا نہ ہو، اگر ان نکات اور تقاضوں پر عمل نہیں کرتا تو خالی عبادت کسی کام کی نہیں۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

کوئی بھی دور رہا ہو یا کوئی بھی خطہ رہا ہو، اگر حکمراں اپنی عبادت اور مذہبی فرائض کی نمائش شروع کر دیتا ہے اور حکومت کے تقاضوں کو ترجیح دینا کم کر دیتا ہے تو اس کا یہ عمل حکومت اور سلطنتوں کے زوال کی وجہ بن جاتا ہے۔ حکمراں کی اصل اور حقیقی عبادت اپنے عوام کی فلاح و بہبود ہے اور اگر حکمراں نے اس سے چشم پوشی کی تو پھر حقیقت سمجھنے کے لئےلال قلعہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ لال قلعہ کو دیکھ کر یہ احساس مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ بادشاہوں کی طاقت اور نجومیوں کا علم سب دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے اور وہ تاریخ بن جاتا ہے۔ اس لئے میں کیوں نہ کہوں کہ حکمراں کا اصلی علم اور حقیقی عبادت اپنےعوام کی فلاح و بہبود ہی ہے۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 06 Dec 2020, 8:11 PM IST