ایسا لگتا ہے کہ گزشتہ مارچ سے زندگی از سر نو بدل گئی ہے، زندگی ایسے ایسے تجربوں سے گزر رہی ہے جس کا کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ مکہ میں حرم شریف کا خالی ہونا، عبادت گاہوں کا بند ہونا، مذہبی پیشواؤں کا زور دینا کہ لوگ گھروں پر ہی عبادت کریں، رمضان، عید، بقرعید (عید الاضحی)، رکشا بندھن وغیرہ کا کورونا وبا کے خوف سے گھر پر ہی منانا، لاک ڈاؤن میں کاروبار زندگی کا مکمل طور سے بند ہو جانا، تعلیمی سرگرمیوں کا اتنے لمبے عرصے تک معطل رہنا، گھروں سے آفس کا کام کرنا، آن لائن سمینار اور آن لائن میٹنگیں کرنا یہ وہ چند چیزیں ہیں جن کا انسان نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اسی وبا کے بیچ کل یوم آزادی کی تقریب بھی گزر گئی۔ یوم آزادی کی شروعات لال قلعہ کی فصیل سے وزیر اعظم کے خطاب سے ہوتی ہے اور اس کو لے کر عوام میں ایک زبردست جوش نظر آ تا تھا۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے یوم آزادی پر پایا جانا والا جوش ختم ہو چکا ہے اور اس مرتبہ تو اس پر کورونا وبا کا کالا سایہ تھا۔ سماجی دوری پر عمل کرتے ہوئے بس وزیر اعظم نے جلدی جلدی لال قلعہ سے حکومت نے جو کام کیے ہیں اور آگے جو کرنے ہیں ان پر روشنی ڈالی اور چلے گئے۔
Published: undefined
یو م آزادی پر لال قلعہ سے وزیر اعظم کے خطاب کا مطلب بھی یہی ہوتا تھا کہ عوام کو حکومت اپنے کاموں اور پالیسیوں کے بارے میں بتائے۔ مرحوم اندرا گاندھی کے زمانہ تک لوگوں میں لال قلعہ کا خطاب سننے کے لئے زبردست جوش دیکھا جاتا تھا۔ کچھ لوگ تو اس خطاب کو سننے کے لئے ایسے تیاری کرتے تھے جیسے حج پر جانے کی تیاری کر رہے ہوں اور جو نہیں جا پاتے تھے وہ ریڈیو کے گرد بیٹھ کر خطاب سنتے تھے اور پھر اس تقریر پر تبصرہ کرتے تھے۔ زیادہ تر لوگ جہاں خطاب کی زبردست تعریف کرتے تھے وہیں ایک طبقہ وہ بھی ہوتا تھا جو اس خطاب کی کمیوں پر انگلی بھی اٹھاتا تھا اور سوال بھی کرتا تھا۔ اب تو خیر گھر کے ہر کمرے کی تو دور کی بات ہر شخص کی مٹھی میں موجود موبائل میں پی ایم کا خطاب اور اس پر رائے کا سیلاب ہوتا ہے۔ اب لوگ خود تو کم ہی رائے دیتے ہیں بلکہ ان لوگوں کی رائے کو آگے بڑھاتا ہے جو اس نے ٹی وی، فیسبک یا ٹوئٹر پر چند لوگوں کی سنی اور پڑھی ہوتی ہیں۔ اس لئے ملک کے ایک بڑے طبقہ کی رائے ان کی اپنی رائے نہیں ہوتی، بلکہ چند لوگوں کی ہوتی ہے اور وہ بھی ان لوگوں کی جو کسی سیاسی پارٹی کے نظریہ کو فروغ دینے کے لئے اچھے الفاظ میں اپنی رائے فروخت کرتے ہیں۔ اکثریت کی رائے اب میڈیا کی زرخرید غلام ہیں۔ پورے سال ذرائع ابلاغ حکومت کے ہر کام اور اس کی ہر پالیسی پر اتنا تبصرہ کرتا ہے کہ یوم آزادی کے خطاب میں وزیر اعظم کے لئے کچھ بھی نیا کہ پانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ویسے بھی پہلے کے وزراء اعظم دل سے یعنی من سے بات کرتے تھے، وہ اپنے من کی بات نہیں کرتے تھے۔
Published: undefined
کورونا وبا کے خوف کی وجہ سے گزشتہ پانچ ماہ سے زندگی میں جو مایوسی پیدا ہو گئی ہے اس کو دہلی میں یوم آزادی کے موقع پر بکھرتے، ٹوٹتے دیکھا اور خوشی کو جیتّے دیکھا۔ گزشتہ تین روز سے پتنگوں کی دوکانوں پر جو بھیڑ نظر آئی اس سے ایک بات تو واضح تھی کہ لوگ اتنے پریشان ہو گئے ہیں کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی خوشی کے لئے اب کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یوم آزادی پر لوگ سماجی دوری، وبا کے پھیلاؤ، معاشی تنگی وغیرہ کو خاطر میں ہی نہیں لائے اور خوش ہونے کے لئے چھتوں پر نطر آئے، خوب پتنگیں اڑائیں، جم کر آتش بازی کی۔ وہ بھول گئے کہ دنیا ایک وبا سے جوجھ رہی ہے، وہ بھول گئے کہ چند ماہ پہلے تک ایک بڑا طبقہ سڑکوں پر سی اے اے کے خلاف رات دن مظاہرے کر رہا تھا، وہ بھول گئے کہ دہلی نے ابھی چند ماہ قبل بدترین فرقہ وارانہ فسادات دیکھے تھے، وہ بھول گئے کہ چند ماہ پہلے تک میرا تیرا ہندوستان کر رہے تھے۔ انہوں نے تو بس مل کر منایا یوم آزادی اور کہا ’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا، ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا‘۔
Published: undefined
اس ’ہمارے ہندوستان ‘ کے جذبہ پر ہی سب کو مل کر کام کرنا چاہیے اور اچھی اور کامیاب حکومت وہی ہوتی ہے جو قومی اور عوامی مفاد کو ہی صرف ترجیح دے۔ اگر کوئی حکومت، سیاسی پارٹی یا سماجی تنظیم اس ایجنڈے سے ہٹ کر اپنے کچھ ایجنڈے لاگو کرنے کی کوشش کرتی ہے تو ملک اور دنیا کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کامیاب اور مقبول وزیر اعظم بھی وہی ہے جو اپنے من کی بات نہ کرے بلکہ من سے بات کرے اور منوں کو جوڑنے کی بات کرے۔ اقتدار آنے جانے والی شئی ہے لیکن انسانیت کے لئے کام کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined