سیاسی

آرٹیکل 370 ختم کرنے سے قبل کشمیریوں کا دل جیتنا چاہیے تھا... رام پنیانی

بی جے پی لیڈروں کا کہنا ہے کہ بابا صاحب امبیڈکر دفعہ 370 کے خلاف تھے اور اسے ہٹا کر بی جے پی نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ لیکن حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

حکومت ہند نے کشمیر کے لوگوں کی رائے جاننے کا جمہوری طریقہ اختیار کیے بغیر انتہائی جلد بازی میں آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے بارے میں فیصلہ لیا۔ جموں و کشمیر ریاست اب دو مرکز کے ماتحت ریاستوں میں تقسیم ہو گئیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہوا میں بے شمار ادھوری سچائیاں تیر رہی ہیں۔ سابق وزیر اعظم جواہر لال نہرو کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا رہا ہے اور شیاما پرساد مکھرجی کی تعریفوں کے پل باندھے جا رہے ہیں جنھوں نے دفعہ 370 کی مخالفت کی تھی اور جو کشمیر کاہندوستان میں زبردستی انضمام کروانے کے حق میں تھے۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

بی جے پی کے لیڈروں نے اس کے ساتھ ہی ایک نیا شگوفہ چھوڑا ہے۔ 20 اگست 2019 کو ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع خبر کے مطابق بی جے پی کے ارجن رام میگھوال نے کہا کہ ڈاکٹر امبیڈکر دفعہ 370 کے خلاف تھے اور اس کو ہٹا کر بی جے پی نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ میگھوال کا دعویٰ ہے کہ امبیڈکر نے ایک میٹنگ میں شیخ عبداللہ سے کہا تھا کہ ’’آپ چاہتے ہیں کہ ہندوستان کشمیر کی حفاظت کرے، وہاں کے شہریوں کا پیٹ بھرے اور کشمیریوں کو پورے ہندوستان میں یکساں اختیار ملے۔ لیکن آپ ہندوستان کو کشمیر میں کوئی اختیار نہیں دینا چاہتے۔‘‘

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

میگھوال یہ اشارہ بھی کرتے ہیں کہ نہرو کی کشمیر پالیسی کے سبب ہندوستان اور پاکستان میں دشمنی ہوئی جس کے نتیجہ میں دونوں ممالک کے درمیان تین جنگیں ہوئیں۔ میگھوال کے مطابق امبیڈکر کشمیر مسئلہ کا مستقل حل چاہتے تھے اور یہ بھی کہ دفعہ 370 کی وجہ سے کشمیر میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو ہوا ملی۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

یہ ماضی کی باتوں کو غلط طریقے سے پیش کرنے کی کوشش ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بابا صاحب کے علاوہ مولانا حسرت موہانی نے بھی دفعہ 370 کی مخالفت کی تھی۔ میگھوال کے مطابق موہانی کو پارلیمنٹ میں اس دفعہ کی مخالفت کرنے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا گیا۔ بابا صاحب نے اس میٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا جس میں اس دفعہ سے متعلق تجویز کو منظوری دی گئی۔ اس میں کوئی اندیشہ نہیں کہ بابا صاحب نے اس دفعہ کے تئیں اپنی مخالفت سب کے سامنے ظاہر کی تھی۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بابا صاحب کا جمہوریت میں اٹوٹ اعتماد تھا اور اگر وہ آج ہوتے تو یقینی طور سے کہتے کہ کشمیر کے لوگوں کی رائے سب سے بالاتر ہونی چاہیے۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

پاکستان کے ساتھ ہوئی تین جنگوں کے لیے نہرو حکومت کی پالیسیوں کو قصوروار ٹھہرانا قطعی مناسب نہیں ہے۔ پاکستان کے ساتھ پہلی جنگ اس لیے ہوئی کیونکہ اس نے قبائلیوں کی شکل میں اپنے فوجیوں کی کشمیر میں دراندازی کروائی تاکہ ہندو مہاسبھا کے ساورکر کے دو ملکی اصول کے مطابق وہ کشمیر پر کنٹرول قائم کر سکے۔ مسلم لیگ بھی اس پالیسی کی حامی تھی۔ جناح اور پاکستان کا ماننا تھا کہ چونکہ کشمیر مسلم اکثریتی علاقہ ہے اس لیے اسے پاکستان کا حصہ ہونا چاہیے۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

دوسری طرف انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو کی واضح رائے تھی کہ کشمیر کا انضمام دونوں میں سے کس ملک میں ہو، اس کا فیصلہ کشمیر کے لوگوں پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی بھی یہی سوچ تھی کہ کشمیر کے لوگوں کی خواہش کا احترام ہونا چاہیے۔ نہرو کے شیخ عبداللہ سے سال 1930 کی دہائی سے قریبی رشتے تھے۔ دونوں جمہوریت، اکثریت پسندی اور سماج واد میں یقین رکھتے تھے۔ اپنے نظریاتی عزائم کی وجہ سے ہی عبداللہ نے کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنانے کا فیصلہ لیا۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

جہاں تک سال 1965 کی جنگ کا سوال ہے تو اس کے پیچھے کشمیر مسئلہ کا بھی کردار تھا، لیکن اس کے لیے ہندوستان کی کشمیر پالیسی کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ یہ جنگ دونوں ممالک کے کشمیر سے متعلق ایشو پر الگ الگ سوچ کا نتیجہ تھا۔ جہاں تک سال 1971 کی جنگ کا سوال ہے تو اس کا تعلق شمالی پاکستان کے واقعات سے تھا جہاں پاکستان کی فوج نے زبردست استحصال برپا کر رکھا تھا۔ فوج کے مظالم سے پریشان تقریباً ایک لاکھ پناہ گزیں ہندوستان آ گئے تھے۔ اس جنگ سے بنگلہ دیش کو پاکستان کے چنگل سے آزادی ملی۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

جہاں تک کشمیر میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی جڑیں پھیلنے کا سوال ہے، اس کے لیے ہندوستان کی فرقہ پرست طاقتوں کی کارگزاریاں ذمہ دار ہیں۔ میگھوال کی سوچ پر اعتماد رکھنے والے گوڈسے کے ذریعہ مہاتما گاندھی کے قتل نے ہندوستان کی سیکولرزم میں شیخ عبداللہ کے اعتماد کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کا ہندوستان سے لگاؤ ختم ہو گیا اور انھوں نے پاکستان اور چین سے بات چیت شروع کر دی۔ اس کے نتیجہ میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور یہیں سے کشمیر میں علیحدگی پسندی کا جذبہ پیدا ہوا جس نے بعد میں دہشت گردی کی شکل اختیار کر لی۔ اسی کا فائدہ پاکستان نے اٹھایا۔ آگے چل کر القاعدہ جیسے عناصر نے کشمیریت کی دفاع کے ایشو کو ہندو مسلم تنازعہ کی شکل دے دی۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

ہمیں یہ ٹھیک سے سمجھ لینا چاہیے کہ کشمیر میں علیحدگی پسندی اس لیے نہیں پنپی کیونکہ ریاست کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔ علیحدگی پسندی پنپنے کے پیچھے دو اسباب تھے۔ جہاں ہندوستان ریاست کی اکثریت پسند تہذیب و ثقافت کو کمزور کیا وہیں پاکستان نے آگ میں گھی ڈالا۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی اور کشمیر کے ایشو پر اقوام متحدہ کی مختلف قراردادوں، اس حلقہ میں امن کے قیام کی سمت میں اہم قدم تھا۔ مغربی ممالک کی شہ پر پاکستان نے کشمیر کے اس حصے کو چھوڑنے سے انکار کر دیا جس پر اس نے زبردستی قبضہ جما لیا تھا۔ کشمیر میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں ریفرنڈم کی تجویز کو ڈیپ فریزر میں رکھ دیا گیا۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

دراصل میگھوال شاید کشمیر کے ایشو اور اس کی بنیادوں کو سمجھ ہی نہیں سکے۔ وہ اِدھر اُدھر کی تاریخ کے کچھ واقعات کو اٹھا کر ان کا استعمال اپنی پارٹی کے منمانے فیصلے کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کر رہے ہیں۔ اس فیصلہ میں شفافیت اور جمہوری دونوں کی کمی ہے۔ بابا صاحب کی سیاست پوری طرح شفاف اور اصولوں پر مبنی تھی۔ وہ جو سوچتے تھے، وہی کہتے تھے اور جو کہتے تھے وہی کرتے تھے۔ امبیڈکر آئین کی مسودہ کمیٹی کے سربراہ تھے اور اس کمیٹی نے آئین کا جو مسودہ تیار کیا تھا، اس میں دفعہ 370 شامل تھی۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

ہاں، یہ قبول کرنے میں کسی کو کوئی گریز نہیں ہونا چاہیے کہ دفعہ 370 ایک غیر مستقل حل تھا۔ لیکن اسے ہٹانے سے پہلے ہمیں یہ یقینی کرنا تھا کہ پڑوسی ملک سے ہمارے رشتے بہتر ہوں اور ہم کشمیر کے لوگوں کے دلوں کو جیت سکیں۔ پاکستان چاہے جو مسئلہ کھڑا کرے، ہمیں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنی ہی چاہیے۔ بابا صاحب اور سردار پٹیل بھی یہی کرتے۔ قوموں کی بنیاد محبت اور خیر سگالی پر رکھی جاتی ہے۔ لوگوں پر جبراً کوئی نظام لادنے سے نقصان کا امکان زیادہ ہوتا ہے، فائدہ کم۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 29 Aug 2019, 9:10 PM IST