گزشتہ سال آر ایس ایس راہل گاندھی سے ان کے 50 ویں یوم پیدائش کے موقع پر کانگریس کو تحلیل کرنے کی اپیل کر رہی تھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اور اس کی آئی ٹی سیل کی تمام کوششوں کے باوجود ان کا راہل گاندھی سے پیچھا نہیں چھوٹا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ان کے 51ویں یوم پیدائش کے موقع پر یا مستقبل میں آر ایس ایس پھر سے اسی اپیل کو دہرائے اور ہمیشہ کی طرح تمام سیاستدان، نیم لیڈران اور سیاسی پنڈت اس معاملے پر طرح طرح کے مشوریں پیش کریں۔
Published: undefined
ان کی صلاح میں بہلانے، پھسلانے، تنگ کرنے اور یہاں تک کہ یہ باتیں بھی ہوں گی کہ راہل گاندھی کو کنارہ کشی اختیار کر لینی چاہیے اور کسی دوسرے کو کانگریس کی باگڈور سونپ کر اس کی از سر نو تعمیر کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ انہیں کانگریس میں دل بدل کر رہے رہنما، کانگریس کی انتخابی ہار، پارٹی کی طاقت اور قسمت سب کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اور اس طرح وہ اس حقیقت کا اعتراف کر لیں گے کہ راہل گاندھی ہی ہیں جنہوں نے کانگریس پارٹی کو زندہ رکھا ہے اور اس کی دھمک کا بھی احساس کرا رہے ہیں۔ لہذا وہ ایسے مشورہ اس لئے دیں گے تاکہ کانگریس کی یہ دھمک ختم ہو جائے۔
Published: undefined
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس بلا شبہ یہ جانتے ہیں کہ راہل گاندھی وہ واحد لیڈر ہیں جو کانگریس ہی میں نہیں بلکہ حزب اختلاف میں ایسے لیڈر ہیں جو آر ایس ایس اور بی جے پی سے کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اس دعوے پر صرف ایک ہی لیڈر کھرے اترتے ہیں اور وہ ہیں لالو پرساد یادو۔ تاہم ضعیف العمری، بیماریوں اور طویل مدت سے جیل میں قید رہنے کی وجہ سے وہ کافی کمزور ہو چکے ہیں اور بی جے پی کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہیں۔ بقیہ جماعتوں اور حزب اختلاف کے کچھ وزائے اعلیٰ نے بھی وقتاً فوقتاً بی جے پی کو کرارا جواب دیا ہے اور نریندر مودی سے طاعون کی طرح پرہیز کیا ہے۔
Published: undefined
آر ایس ایس کے ایک مفکر نے ایک مرتبہ یہ اعتراف کیا تھا کہ آر ایس ایس نے کانگریس کے کئی لیڈران کے ساتھ رابطہ قائم کیا ہے اور موجودہ اقتدار اور قوت حکمرانی کے پیش نظر وہ کانگریس کے نظریہ سے ہٹنے کو بھی تیار ہیں لیکن راہل گاندھی اور کانگریس صدر سونیا گاندھی کسی طرح سنگھ سے مکالمہ کے لئے تیار نہیں ہو سکتے۔
Published: undefined
آر ایس ایس اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تقریباً 10 سال میں راہل گاندھی کا مذاق اڑانے اور تمام طرح کی منفی تشہیر کے باوجود راہل گاندھی کی شائستگی، ان کی دانشمندی، ملک کے تئیں ان کی سرشاری، لوگوں کے ساتھ ان کے روابط اور کھری بات کرنے کی قابلیت سنگھ کی آنکھ میں ہمیشہ کانٹے کی طرح چبھتی رہی ہے۔
Published: undefined
کانگریس از سر نو زندہ کرنے کے لئے راہل گاندھی سے الگ تھلگ ہونے کی بات کرنے والی بی جے پی کی ٹولکٹ کے وائرل ہونے سے کچھ روز قبل ہی راقم الحروف نے کانگریس کے ایک سینئر لیڈر سے بات کی تھی، جنہوں نے یہ اعتراف کیا تھا کہ دراصل سنگھ چاہتا ہے کہ راہل گاندھی الگ ہو جائیں اور کانگریس کی باگڈور کسی اور کے ہاتھ میں سونپ دیں۔ مذکورہ لیڈر نے کانگریس کے ایک مخصوص لیڈر کا نام لیا تھا، جو پہلے ہی بی جے پی کے ساتھ عوامی طور پر سمجھوتہ کر چکا ہے اور کہا تھا کہ سنگھ انہیں کانگریس کے ممکنہ صدر کے طور پر دیکھتا ہے۔ ایک لیڈر نے بی جے پی کے ساتھ لیڈر کے روابط کا یوں دفاع کیا، ’’اگر آپ کو ایک عہدہ دینے کا لالچ دیا جائے اور اسے پورا نا کیا جائے تو کیا آپ ساتھ چھوڑ کر کسی دوسری جماعت میں شامل نہیں ہو جائیں گے!‘‘
Published: undefined
کانگریس کے کچھ لیڈران ایسے بھی ہیں جو سیاست کو ایک پیشہ کی نظر سے دیکھتے ہیں اور یہ ان کے لئے کوئی نظریہ یا ملک کی خدمت کا عزم نہیں ہے۔ جیسا کہ سینئر کانگریس لیڈر جے رام رمیش نے حال ہی میں کہا تھا کہ کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونا کسی بینک کے ملازم کی طرح کام کرنا نہیں ہے، لیکن بی جے پی اور سنگھ کو ایسے ہی لیڈران پسند آتے ہیں اور اس لئے وہ ان لوگوں سے نفرت کرتے ہیں جو ان کے نظریات سے علیحدہ سوچ رکھتے ہیں۔
Published: undefined
بی جے پی کی سوشل میڈیا ٹیم اور پرچار کی مشینری راہل گاندھی پر اس امید میں حملے جاری رکھے گی کہ شاید کچھ ہو جائے لیکن راہل گا ندھی اپنی جگہ پر جمے ہوئے ہیں اور اسی سے ان کے مخالفین کو تکلیف ہوتی ہے۔ راہل گاندھی یہاں تک اپنے دم پر پہنچے ہیں اور اپنی جرأت اور اعتماد سے آگے بڑھے ہیں۔ وہ اپنے مخالفتین پر تبصرہ نہیں کرتے۔ انہوں نے انتہائی سخت الفاظ کا سامنا کیا ہے لیکن ان کی خاموشی نے مخالفین کو مایوس کر دیا۔
Published: undefined
کانگریس کے کئی ترجمان ہیں جنہوں نے کانگریس اور راہل گاندھی مخالف پرچار اور مہم کو تیکھا جواب دیا ہے اور اس سے ان کی ایک الگ شناخت بھی پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اقتدار اور حکمران جماعت کے سامنے سچ بولنے کے لئے تمام طرح کے سوالات اٹھائے ہیں لیکن پارٹی ترجمانوں کو عام طور پر ان سوالوں کے جوابات دینے پڑتے ہیں جن کا جواب سیدھے ہاں یا نہیں میں نہیں دیا جا سکتا۔
Published: undefined
سب کو یاد ہے کہ کس طرح مغربی بنگال میں انتخابات کے دوران وزیر اعلی ممتا بنرجی کو 'دیدی او دیدی' کہنے پر ترنمول کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے وزیر اعظم نریندر مودی کو کھری کھری سنائی تھی۔ مہووا موئترا نے وزیر اعظم کے لہجے پر سوال اٹھایا تھا کہ یہ سب آخر کیا تھا لیکن خود ممتا بنرجی اتنا موثر انداز میں جواب نہیں دے سکتی تھیں کیونکہ وہ پروٹوکول اور وقار کی پابند تھیں۔
Published: undefined
کانگریس کو مہووا موئٹرا جیسے تیز طرار رہنماؤں کی ضرورت ہے جو کسی بھی طنز اور تقریر کے حملوں کا اسی لہجے میں جواب دے سکیں۔ نصف پنڈت اور نصف سیاستدان صرف ایک ہی زبان سمجھتے ہیں، وہ زبان جس میں وہ خود بات کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں راہل گاندھی کو اس وقت صرف ایسے ذاتی ترجمان کی ضرورت ہے جو تیز ہو اور کھری کھری سنا سکے۔
Published: undefined
سال 1988 میں امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران جارج ایچ ڈبلیو بش کی ریپبلکن مہم نے مائیکل ڈوکاسس پر بھاری حملہ کیا تھا اور ان کے یونانی نژاد ہونے کی تضحیک کرتے ہوئے ان پر بے بنیاد الزامات عائد کیے تھے۔ ڈوکاسس نے ان الزامات کا جواب نہیں دیا، انہیں یقین تھا کہ ایسا کرنا مناسب نہیں ہوگا اور لوگ ان کے اس عمل کو سمجھیں گے۔ بدقسمتی سے لوگوں کو سمجھ میں نہیں آیا اور بہتر امیدوار ہونے کے باوجود ڈوکاسس بش سے انتخاب ہار گئے۔
Published: undefined
وہیں، بش کے خلاف میدان میں اترنے والے بل کلنٹن نے اگلے ہی انتخاب میں بش کی اس چال کو سمجھ لیا اور ترجمان کی ایسی فوج میدان میں اتار دی جو ہر الزام کا ترکی بہ ترکی جواب دیتی تھی۔ اس کا لوگوں پر اثر ہوا اور بش کو انتخابات میں شکست ہوئی۔ کانگریس کے اندر اور باہر مخالفین کو جواب دینے کے لئے راہل گاندھی کو خود کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
(یہ کالم نگار کے ذاتی خیالات ہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز