جو کبھی کسی بھی حکومت میں نہیں ہوا وہ مودی حکومت میں ہو رہا ہے، جو پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا وہ اس حکومت میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ مودی حکومت کا کمال ہے کہ اس کے وزرا اجتماعی زنا بالجبر کے ملزموں کے حق میں ریلی نکالتے ہیں اور انسانوں کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالنے والے قاتلوں کو ہار پہنا کر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں۔ جب یہ خبر آئی کہ مرکزی وزیر جینت سنہا نے اپنے حلقہ انتخاب ہزاری باغ میں جھارکھنڈ کے ایک تاجر علیم الدین انصاری کو ہلاک کرنے والے مجرموں کو ہار پہنا کر ان کا استقبال کیا ہے تو کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ البتہ سیاست دانوں کی مذہبی عصبیت اور ذہنی دیوالیہ پن پر افسوس ضرور ہوا۔
گزشتہ سال جون میں جھارکھنڈ کے رام باغ میں ایک مشتعل بھیڑ نے 55 سالہ علیم الدین انصاری کی گاڑی روک کر ان پر گائے کا گوشت لے جانے کا الزام عاید کرتے ہوئے بری طرح زد و کوب کیا تھا جس میں ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔ گیارہ افراد کے خلاف مقدمہ چلا اور اسی سال مارچ میں ایک عدالت نے ان تمام کو عمر قید کی سزا سنائی۔ گؤ کشی کے نام پر بے قصوروں کی ہلاکت کے معاملے میں یہ پہلا فیصلہ تھا جس کی کافی ستائش ہوئی تھی۔ ان لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ انھوں نے ہائی کورٹ میں فیصلے کو چیلنج کیا اور کورٹ نے ان میں سے آٹھ افراد کو ضمانت دے دی اور ان کی سزا کو معطل کر دیا۔
جیل سے باہر آنے کے بعد سات قیدی سیدھے جینت سنہا کے گھر گئے جہاں انھوں نے ان کو مالا پہنا کر ان کی عزت افزائی کی۔ جب اس پر کافی ہنگامہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ وہ صرف قانون کا پالن کر رہے ہیں۔ یعنی قانون نے ان کو رہا کیا ہے اس لیے انھوں نے ان کی عزت افزائی کی۔ جینت سنہا سے یہ سوال کیا جا سکتا ہے ان کو اس سے پہلے کبھی بھی قانون کا پالن کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں جیلوں میں بند بے قصور مسلم نوجوانوں کو جب عدالتوں کے ذریعے رہا کیا جاتا ہے تب ان کو قانون کے احترام کا خیال کیوں نہیں آتا۔ انھوں نے کسی ایک بھی بے قصور کی رہائی پر اس کو ہار پہنانا تو دور کوئی بیان تک کیوں نہیںدیا۔ کیا اس وقت قانون نے اپنا کام نہیں کیا تھا اور آپ کے فارمولے کے مطابق ان کی عزت افزائی نہیں کی جانی چاہیے تھی۔
حالانکہ جھارکھنڈ کے مذکورہ مجرموں کو عدالت نے بے داغ بری نہیں کیا ہے بلکہ ان کو ضمانت دی ہے اور ان کی سزاؤں کو معطل کیا ہے۔ ابھی وہ الزامات سے چھوٹے نہیں ہیں۔ پھر بھی ان کو لگا کہ انھیں ان مجرموں کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ حالانکہ ان کا یہ قدم جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کرنے والا ہے۔ ان کا یہ قدم ماب لینچنگ کے مرتکب افراد کی حمایت کرنے والا ہے۔ یہ قدم شرپسندوں کو یہ پیغام دینے والا ہے کہ تم جو چاہو کرو تمھارے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور اگر ہوگی تو تمھیں رہا کرا لیا جائے گا اور تمھاری عزت افزائی کی جائے گی۔ لہٰذا یہ قدم عدالتوں کو بھی متاثر کرنے والا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب بی جے پی لیڈروں نے مسلمانوں کو گائے کے تحفظ کے نام پر ہلاک کرنے والوں کی عزت افزائی کی ہو۔ اس سے قبل یہی کام سنجیو بالیان اور دوسرے لیڈر دادری میں کر چکے ہیں۔ انھوں نے اخلاق کے قتل کے ملزموں کی حمایت کی تھی۔ اور ایک ملزم کی جیل میں موت کے بعد اس کی میت کو قومی پرچم میں لپیٹ کر اس کی آخری رسوم ادا کی گئی تھیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں کٹھوعہ میں آٹھ سالہ معصوم بچی کی اجتماعی آبروریزی کے ملزموں کے حق میں جموں و کشمیر حکومت کے دو بھاجپائی وزرا نے ریلی نکالی تھی۔ اناؤ میں ریپ کے ملزم بی جے پی ممبر اسمبلی کے حق میں جانے کتنے بھاجپائی لیڈروں نے بیانات دیے تھے۔
Published: undefined
حالانکہ جینت سنہا اس قسم کی سیاست میں پہلے ملوث نہیں ہوتے تھے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ان کے والد اور سابق مرکزی وزیر یشونت سنہا کو نیچا دکھانے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ آپ جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہے اور یہاں تک کہ آپ کا بیٹا بھی آپ کے خلاف ہے،ان سے اس قسم کی حرکتیں کروائی جا رہی ہیں۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ جب یشونت سنہا نے مودی حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف اپنی مہم شروع کی تھی اور حکومت پر جارحانہ انداز میں حملہ کیا تھا تو جینت سنہا سے ہی ان کی مخالفت کروائی گئی تھی اور ان سے ان کے مضمون کے جواب میں اسی اخبار میں مضمون چھپوایا گیا تھا۔ اس لیے ہمارا خیال ہے کہ یہ حرکت بھی ان سے کروائی گئی ہے۔
بہر حال جینت سنہا کے اس قدم کی جب زبردست مخالفت شروع ہوئی، سوشل میڈیا پر ان کے والد یشونت سنہا کو لوگ گھیرنے لگے اور یہ پوچھنے لگے کہ کیا وہ اپنے بیٹے کے اس قدم کی حمایت کرتے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ان کو ایک ’’لائق بیٹے‘‘ کا ’’نالائق باپ‘‘ تک کہا گیا تو بالآخر یشونت سنہا میدان میں آئے اور انھوں نے جینت سنہا کے اس قدم کی پرزور انداز میں مخالفت کی۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر اپنی نکتہ چینی کرنے والوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ پہلے میں لائق بیٹے کا نالائق باپ تھا مگر اب رول بدل گیا ہے۔ اسیا ٹویٹر پر لوگ کہہ رہے ہیں۔ میں اپنے بیٹے کے فیصلے سے اتفاق نہیں رکھتا۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس کے بعد بھی ٹویٹر پر میری بے عزتی کی جائے گی۔
بہر حال یہ قدم جہاں مذہب کی بنیاد پر ملزموں اور مجرموں کی حمایت کرنے والا قدم ہے وہیں اس سے شرپسند عناصر کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ اندیشہ ہے کہ اس قسم کے واقعات رکیں گے نہیں بلکہ 2019 کے عام انتخابات تک جاری رہیں گے تاکہ عوام کو مذہی شدت پسندی کی افیون چٹائی جائے اور ان کے ذہن و دماغ کو ماؤف کرکے ان کے ووٹ لیے جائیں۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو ہندوستانی معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ اس قسم کے رجحانات و اقدامات کی حوصلہ شکنی کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز