سیاسی

تو کیا ’سیاسی بحث‘ میں برقرار رکھنے کے لیے میسا بھارتی سنبھالیں گی آر جے ڈی کی قیادت!

میسا بھارتی کو سامنے لانے کی کوششوں سے کم از کم آر جے ڈی موضوع بحث تو بنی ہی رہ سکتی ہے۔ خاص طور سے تب جب کہ آئندہ سال بہار اسمبلی کے انتخاب ہونے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

لوک سبھا انتخاب میں جب 23 مئی کو ووٹوں کی گنتی ہو رہی تھی تو تقریباً دن بھر میسا بھارتی بی جے پی امیدوار رام کرپال یادو سے آگے چل رہی تھیں۔ لیکن شام ہوتے ہوتے وہ پیچھے ہو گئیں اور آخری ووٹ جب گنا گیا تو وہ تقریباً 39 ہزار ووٹ سے ہار گئیں۔ میسا بھارتی کی شکست کے ساتھ ہی طے ہو گیا کہ بہار میں اس بار آر جے ڈی کا کھاتہ تک نہیں کھلے گا۔

Published: undefined

لیکن اپنے سسرال پاٹلی پترا میں لگاتار دوسرا لوک سبھا انتخاب ہارنے کے باوجود میسا بھارتی کے والد کے ذریعہ 1997 میں جنتا دل سے الگ ہو کر قائم کی گئی پارٹی آر جے ڈی میں قیادت کی تبدیلی کے امکانات مضبوط ہو گئے ہیں۔ 44 سالہ میسا بھارتی لالو یادو کی سب سے بڑی بیٹی ہیں اور ان کی پیدائش ایمرجنسی کے دور میں ہوئی تھی۔ فی الحال وہ آر جے ڈی سے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ ہیں۔ بہار اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اوربہار کے سابق نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو لالو یادو کے چھوٹے بیٹے ہیں۔ ان کی پیدائش 1989 میں اس دن ہوئی تھی جس دن برلن کی دیوار منہدم ہوئی تھی۔

Published: undefined

آخر آر جے ڈی کی امیدیں اب میسا بھارتی سے کیوں بندھی ہوئی ہیں؟ دراصل رگھوونش پرساد سنگھ، جے پرکاش نارائن یادو، جگدانند سنگھ جیسے پارٹی کے سبھی اعلیٰ لیڈر جب بڑے فرق سے میدان ہار گئے تو صرف میسا ہی تھیں جو اپنی شکست کا فرق کم رکھنے میں کامیاب ہوئیں۔ اس میں شبہ نہیں کہ تیجسوی نے مضبوطی کے ساتھ پارٹی کے معاملوں کو سنبھالا، لیکن لوک سبھا انتخابات میں آر جے ڈی کے ساتھ ہی اتحاد کا صفایا ہونے کے ساتھ ہی ان کی قیادت پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ ساتھ ہی فیملی میں بھی ان کی اہمیت گھٹتی نظر آ رہی ہے جہاں لالو کے بڑے بیٹے تیج پرتاپ پہلے سے ہی مسائل کھڑے کرتے رہے ہیں۔ ایسے حالات میں میسا بھارتی ہی پارٹی کے لیے متفقہ لیڈر ہو سکتی ہیں۔

Published: undefined

میسا بھارتی کے حق میں کئی باتیں جاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ وہ خاتون ہونے کے ساتھ ہی تیجسوی سے 14 سال بڑی ہیں۔ پیشے سے ڈاکٹر ہیں اور سیاست کی بھی سمجھ ہے۔ فیملی کے باہر بھی انھیں لے کر عام طو رپر کسی کو زیادہ دقت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی سبھی بڑی ہستیاں انتخاب میں بری طرح ہار گئی ہیں اور پارٹی میں ان کا اثر پہلے سے کافی کم ہوا ہے۔

Published: undefined

اس بار کے لوک سبھا انتخاب میں یہ پہلا موقع ہے جب لالو کی پارٹی کو محض 15 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ ویسے آر جے ڈی نے اس بار صرف 19 سیٹوں پر ہی الیکشن لڑا تھا۔ لیکن دقت یہ ہے کہ اپنا مینڈیٹ کمزور دیکھ کر پارٹی نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کیا، لیکن یہ سب الٹا پڑا اور اس کا کھاتہ تک نہیں کھلا۔

Published: undefined

ایسے مشکل حالات اور والد کے جیل میں ہونے کی صورت میں اگر میسا بھارتی پارٹی کی قیادت سنبھالتی بھی ہیں تو ان کے لیے آر جے ڈی کو مضبوط بنانا مشکل ہوگا۔ حالانکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کو کبھی بھی ختم نہیں مانا جانا چاہیے، خاص طور سے جب 1984 میں صرف 2 سیٹیں جیتنے والی بی جے پی آج 300 سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آ چکی ہے۔

Published: undefined

ان سب کے بیچ آر ایل ایس پی اور ہندوستانی عوام مورچہ اور جیتن رام مانجھی کی بری حالت کا تذکرہ تک نہیں ہو رہا ہے۔ ایسے میں میسا بھارتی کو سامنے لانے کی کوششوں سے کم از کم آر جے ڈی بحث میں تو رہ ہی سکتی ہے۔ خاص طور سے تب جب کہ اگلے سال بہار اسمبلی کے انتخاب ہونے ہیں۔

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined