غضب ہو گیا! وہ بہار جہاں پچھلی تقریباً تین دہائیوں سے کوئی بڑا ہندو-مسلم فساد نہیں ہوا تھا، اسی بہار میں محرم، درگا پوجا اور دسہرے کے موقع پر پچھلے ہفتے تقریباً 24 جگہوں پر فساد بھڑک اٹھے۔ محض بہار ہی نہیں بلکہ پڑوسی ریاسست اتر پردیش میں کانپور سمیت تقریباً نصف درجن جگہوں پر محرم کے جلوس کو مسئلہ بنا کر ہندو-مسلم فساد کروا ئےگئے۔ اب ایک بات ثابت ہو چکی ہے کہ فساد ہوتے نہیں ہیں بلکہ کروائے جاتے ہیں اور فسادات کے پیچھے سیاسی منشا ہوتی ہے۔ اگر آپ سنہ 1992 میں بابری مسجد گرائے جانے کے بعد ہونے والے فسادات سے لے کر سنہ 2002 میں گجرات کے خونریز فساد تک ہونے والے فسادات کا سیاسی تجزیہ کریں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر بڑے فساد کے بعد بی جے پی کو فائدہ ہوا ہے۔ مثلاً بابری مسجد گرنے کے بعد جو لوک سبھا انتخابات ہوئے ان میں بی جے پی کی لوک سبھا میں تعداد بڑھ گئی ۔ اسی طرح سنہ 1993 میں ممبئی فساد کے بعد سنہ 1995 میں بی جے پی اور شیو سینا پہلی بار اقتدار میں ملی جلی سرکار بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہی صورت حال سنہ 2002 میں گجرات فسادات کے بعد نریندر مودی کے ساتھ ہوئی۔ گجرات فسادات کے بعد مودی نہ صرف لگاتار تین بار گجرات کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے بلکہ وہ سارے ہندوستان کے ’ہندو ہردے سمراٹ‘ بن کر سنہ 2014 میں ملک کے وزیر اعظم بن بیٹھے۔
لب لباب یہ کہ فسادات بی جے پی کے لیے اقتدار حاصل کرنے کا سب سے اہم اور موثر ہتھیار ہیں۔ لیکن بی جے پی تو ان دنوں اقتدار میں ہے۔ مرکز میں مودی کی حکومت ہے، یو پی میں یوگی کا ڈنکا بج رہا ہے اور بہار میں نتیش کمار کے ساتھ مخلوط حکومت میں بی جے پی ساجھی دار ہے، تو پھر آخر ہندوتوا طاقتوں کو بہار اور اتر پردیش میں فسادات کی کیوں ضرورت پڑ گئی!
اس کا جواب سیاست میں نہیں بلکہ معاشی فرنٹ پر صاف نظر آتا ہے۔ مودی حکومت معاشی فرنٹ پر پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ ہندوستان کی معیشت کا کم و بیش دم نکل چکا ہے۔ بقول بی جے پی کے سابق وزیر خزانہ یشونت سنہا کے ملک کی جی ڈی پی کی شرح 3.2 فیصد پہنچ چکی ہے جو حکومت کے سرکاری دعوے 5.7 فیصد سے بھی کم ہے۔ پھر ملک میں روزگار ندارد ہے۔ نوجوانوں کو روزگار ملنے کے بجائے روزگار سے لگے نوجوان نوکریوں سے باہر کیے جا رہے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی ریفارم نے چھوٹے دکاندار ہی کیا، بڑے سرمایہ داروں کے علاوہ تمام ہندوستانی صنعت و حرفت کا بھٹا بیٹھا دیا ہے۔ بڑی بڑی کمپنیاں تالابندی کی کگار پر ہیں۔ ملک میں ایکسپورٹ اور امپورٹ دونوں گھٹتا جا رہا ہے اور کھیتی کا برا حال ہے۔ پھر مکانوں اور رئیل اسٹیٹ کا کاروبار تقریباً بند پڑا ہے۔
الغرض ملک کی معیشت کا بھٹا بیٹھ چکا ہے۔ یاد رکھیے کہ اگر کسی حکومت کی معیشت بگڑتی ہے تو اس کی سیاست بھی ضرور بگڑ جاتی ہے۔ چنانچہ اس وقت نریندر مودی کی سیاست بھی تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ اس کے آثار بھی اب صاف نمایاں ہیں۔ پچھلے ایک مہینے کے اندر کم از کم نوجوانوں نے تو مودی سے منھ موڑ لیا ہے۔ اگر آپ ستمبر میں مختلف یونیورسٹیوں میں ہونے والے طلبہ یونین کے نتائج کا جائزہ لیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ بی جے پی کی طلبا تنظیم اے بی وی پی ہر جگہ انتخاب ہاری ہے۔ پہلے جے این یو دہلی میں اے بی وی پی کو منھ کی کھانی پڑی، پھر اس کے بعد دہلی یونیورسٹی، چنڈی گڑھ میں پنجاب یونیورسٹی، جے پور یونیورسٹی، گوہاٹی یونیورسٹی، تریپورہ یونیورسٹی اور پھر آخر میں حیدر آباد یونیورسٹی تک میں اے بی وی پی ہار گئی۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو نوجوان ابھی کچھ عرصے قبل تک ’مودی، مودی‘ کہتے نہیں تھکتا تھا وہی نوجوان اب مودی سے منھ موڑ رہا ہے۔ صرف یونیورسٹیاں ہی نہیں بلکہ چہار سو پچھلے مہینے سے بی جے پی کی انتخابی شکست کی خبریں آ رہی ہیں۔ سب سے پہلے دہلی کے ایک اسمبلی حلقے میں ہوئے ضمنی انتخاب میں بی جے پی بری طرح ہاری، پھر دہلی سے ملے ہریانہ کے گڑگاؤں ضلع کے میونسپل انتخاب میں بی جے پی کو منھ کی کھانی پڑی اور اس مضمون کے لکھے جانے سے چند گھنٹوں قبل جے پور ضمنی میونسپل انتخاب میں بھی بی جے پی کو زبردست شکست کا سامنا رہا۔
یعنی معیشت بگڑی تو بی جے پی کی سیاست بھی بگڑ گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ نریندر مودی جو سنہ 2022 تک ایک نئے ہندوستان کا خواب بُن رہے ہیں وہ مودی آسانی سے ہندوستان کا اقتدار چھوڑ دیں گے۔ یا پھر وہ سنگھ جو مودی کو اپنے کاندھوں پر سوار کر ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے کے لیے لائی ہے وہ سنگھ سنہ 2019 کے انتخابات میں آسانی سے اپنی ہار مان لے گی! ہرگز نہیں۔ سنگھ نے سنہ 1925 میں اپنے قیام کے بعد ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے اپنا خون پسینہ بہایا ہے۔ مودی راج ان کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ وہ اس خواب کو اتنی آسانی سے چکنا چور نہیں ہونے دیں گے۔ پھر نریندر مودی سنگھ کے بھکت ہی نہیں بلکہ خود کو تاریخ میں ہندو راشٹر کے معمار کہلوانے کا خواب رکھتے ہیں۔ وہ سنگھ اور وہ مودی جلد اقتدار نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ بگڑی معیشت نے تو سنگھ اور مودی دونوں کی سیاست بگاڑ دی ہے۔ ان حالات میں اقتدار کو کس طرح بچایا جائے۔ سنگھ اور مودی کے پاس اب صرف ایک ہی کارڈ بچا ہے جو ان کا بگڑا کھیل بنا سکتا ہے اور وہ کارڈ ہے فرقہ پرستی کا کارڈ۔ بہار اور اتر پردیش میں ہونے والے حالیہ فسادات اسی بات کا اشارہ ہیں کہ سنگھ پریوار مودی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ہندو-مسلم فسادات کی تیاری کر چکا ہے۔ اگر گجرات میں دو ہزار مسلمانوں کی نسل کشی سے پندرہ سال تک مودی کا اقتدار برقرار رہ سکتا ہے تو پورے ہندوستان میں ہزاروں کیا ایک دو لاکھ مسلمانوں کی جانیں لے کر مرکز میں پندرہ برس اقتدار اپنے ہاتھوں میں رکھ کر ہندوستان کو ’ہندو راشٹر‘ بنانے میں بھلا کیا مضائقہ ہو سکتا ہے!
معیشت بگڑ چکی ہے اس لیے مودی کی سیاست بگڑ چکی ہے۔ اور یہ سنگین صورت حال ہے۔ ان حالات میں فرقہ پرستی کارڈ کا حربہ ہی کام دے سکتا ہے، اور مودی و سنگھ اس حربہ کے پرانے کھلاڑی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان اس خطرے کو ٹالنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ اور اگر نہیں تو پھر سنہ 2019 تک ہندوستان کو درجنوں گجرات جیسے فسادات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
Published: undefined
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined