پاکستان کی قومی اسمبلی میں مشترکہ اپوزیشن نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر دی ہے۔ تحریک کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آیا عمران خان کے اتحادی اپوزیشن کے ساتھ مل کر عمران خان کو باہر کا راستہ دکھائیں گے یا نہیں۔ عمران خان کے چار بڑے اتحادی ہیں جن میں چھ نشستوں کے ساتھ مسلم لیگ (ق)، پانچ نشستوں کے ساتھ بی اے پی اور سات نشستوں کے ساتھ ایم کیو ایم شامل ہیں۔ واضح اشارے ہیں کہ ان میں سے تین پارٹیاں اپوزیشن کے ساتھ جا رہی ہیں اس لیے عمران خان کا جانا طے نظر آ رہا ہے۔
Published: undefined
پاکستان کی مشترکہ اپوزیشن نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کر لیا ہے۔ نواز شریف جن کو 2017 میں سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہل قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد سے وہ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ شہباز شریف کی حکومت میں واپسی کی امید کی جا رہی ہے اور مانا جا رہا ہے کہ نواز شریف بھی اپنے بھائی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پاکستان واپس آجائیں گے۔
Published: undefined
تحریک عدم اعتماد 8 مارچ 2022 کو پیش کی گئی تھی۔ پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر اجلاس کی درخواست کی وصولی کے بعد چودہ دن کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے پابند ہیں اور عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد سات دن میں ووٹنگ کرانے کے بھی پابند ہیں۔
Published: undefined
یہ بات بالکل واضح ہے کہ عمران خان ووٹنگ کے بعد اقتدار سے محروم ہو جائیں گے اور حکومت کی تبدیلی ہو جائے گی۔ عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں آئے تھے۔ ان کی طاقت فوجی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت رہی ہے۔ تاہم اب اپوزیشن دعویٰ کر رہی ہے کہ فوجی اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو چکی ہے۔ عمران خان نے بھی یہ اعتراف کیا ہے کہ فوج غیرجانبدار ہو گئی ہے اور وہ ان سے ناخوش ہیں کیونکہ ان کی غیر جانبداری کا مطلب ہے کہ وہ اب ان کی حمایت نہیں کر رہی ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اتحادی بھی اس غیر جانبداری کی وجہ سے کیمپ بدل رہے ہیں۔
Published: undefined
یہ بات پہلے دن سے عیاں تھی کہ عمران خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کی مدد کے بغیر اقتدار پر فائز نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے چار سالہ دور اقتدار میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کا استعمال کیا۔ لیکن کون جانتا تھا کہ اکتوبر 2021 میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے کا تنازع ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حمایت واپس لینے پر مجبور کردے گا۔
Published: undefined
عمران خان لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر برقرار رکھنا چاہتے تھے جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ انہیں تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ آئی ایس پی آر نے ان کے تبادلے اور نئے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے احکامات جاری کیے، لیکن عمران خان نے مزاحمت کی۔ آئین کے تحت ڈی جی آئی ایس آئی کے تبادلے اور نئی تقرری کے لیے ان کے دستخط لازمی ہیں۔ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تین ہفتوں تک جاری رہے تعطل کے بعد عمران خان نے ہتھیار ڈال دیئے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے پر دستخط کر دیئے، لیکن ان تین ہفتوں میں پیدا ہونے والا خلا اب ان کی برطرفی کا نتیجہ ہے۔
Published: undefined
عمران خان اب اپنی معزولی کا الزام بیرونی طاقتوں پر لگا رہے ہیں۔ 27 مارچ 2022 کو دارالحکومت اسلام آباد میں اپنے آخری عوامی اجتماع میں انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کے پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ ان کی بے دخلی غیر ملکی مداخلت کا نتیجہ ہے۔ عمران نے ایک خط دکھایا، لیکن خط کے متن کو ظاہر نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ خط کے متن کو ظاہر کرنا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ وہ کسی عالمی طاقت کا نام نہیں لے رہے بلکہ ان کا اشارہ امریکہ کی طرف ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی معزولی کے لیے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر الزام بھی نہیں لگا رہے۔
Published: undefined
شہباز شریف کی واپسی اس بات کی علامت ہے کہ شریف اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازعات حل ہو چکے ہیں۔ تاہم یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ شہباز شریف ہمیشہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت اور اچھے تعلقات کے حامی رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی پارٹی میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثالی تعلقات کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ وہ ہمیشہ مفاہمت کی علامت رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ان کے نام پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
Published: undefined
اب عمران خان کا اقتدار سے جانا طے مانا جا رہا ہے اور اب یہ چند دنوں کی بات رہ گئی ہے۔ عمران خان کی تمام تر سیاسی کامیابی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ اس نعمت کے بغیر کیسے زندہ رہ سکتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر کوئی پوچھ رہا ہے۔ وہ مزاحمت کریں گے یا ہتھیار ڈال دیں گے۔ یہ طے ہے کہ پاکستان میں آنے والے دن سخت اور مشکل ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined