حکمراں بی جے پی کی ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت ایک بڑی خوش فہمی میں مبتلا ہیں جس کا اظہار انہوں نے ’وجے دشمی‘ کے موقع پر اپنی ایک تقریر میں کیا ہے۔ بھاگوت کا ماننا ہے کہ سنگھ کا نظریہ اس ملک کے بارے میں صاف ہے اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہندوستان ہندو راشٹر ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آرایس ایس کی ذہنیت نے پورے ملک میں اعتماد پیدا کیا ہے جو آرایس ایس سے جڑا نہیں ہے، ان کے درمیان دشمنیاں پائی جاتی ہیں، آر ایس ایس ہندو معاشرے کو منظم کر رہا ہے۔ بھاگوت یہیں نہیں رکے انہوں نے آگے کہا کہ پورا ہندوستان ہندو راشٹر ہے اور جو بھارت کے ہیں، جو بھارتی باپ دادا کی اولاد ہیں وہ سب کے سب بھارتی ہندو ہیں۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
آر یس ایس سربراہ کا ہندو راشٹر کا خیال ہندوؤں کی بالا دستی پر مبنی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر اس شخص کو زبردستی ہندو بنا دیا جائے گا جو ہندو نہیں ہیں۔ ہندوستان کے آئین کے مطابق اقلیتوں کو بھی ہندوستان میں رہنے کا حق ہے۔ بھاگوت کا خیال ’دل کوبہلانے کے لئے ...اچھا ہے۔ بھگوا بریگیڈ کو اکثر یہ خیال اس لئے آتا ہے کہ انہیں اپنے ہدف تک پہنچنا مشکل ہے۔ دسہرہ کے موقع پر آر ایس ایس سربراہ کی تقریر آر ایس ایس کی دیرینہ آرزو کا محض اظہار تھی۔ حقائق سے دور خیالی باتیں کرنے والے یہ مٹھی بھر عناصر تھوڑی سی عوامی حمایت حاصل ہونے پر خود کو عقل کل سمجھنے لگتے ہیں۔ اس لئے ’ہندوستان کو ہندوراشٹرا‘ بنانے کا اعلان کر رہے ہیں۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
ہندوستانی قوم کی شناخت ہندوراشٹرا میں ہے تو پھر یہ قوم ساری دنیا کے سامنے نفرت پیدا کرنے والی قوم بن کر ابھرے گی۔ کیونکہ ہندوستان صرف ایک مخصوص ذہنیت (آر ایس ایس) رکھنے والوں کی جاگیر نہیں ہے۔ یہاں فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عوام کو ہے اور ہندوستانی عوام کی اکثریت ایک سیکولر ذہن رکھتی ہے۔آر ایس ایس کے پاس صرف ایک ہی ہنر ہے اور یہ نفرت پیدا کرنے والا ہنر ہے۔ اس کے نتائج سے بے خبر آر ایس ایس کو تھوڑی سی سیاسی طاقت ملتے ہی وہ بے قابو ہو رہی ہے۔ اس ملک میں معاشی تباہی نے دستک دے دی ہے۔ انسانوں کے درمیان نفرت پیدا کردی گئی ہے۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
ہندوستانیوں میں نفرت پیدا کرو، حکومت بناو، ہندوراشٹرا کا نعرہ لگاوؤ اور ملک کو تقسیم کردو، یہ دونوں مشن آر ایس ایس کے نہایت ہی خطرناک اور تباہ کن ہیں۔ سنگھ پریوار اپنے برسوں پرانے منصوبوں کو برسر عام پیش کرنے کی جرأت اس لئے کر رہا ہے کہ ملک کے عام شہریوں کو گمراہ کیا جا چکا ہے۔ دیکھنا یہ کہ آرایس ایس اپنے اس نظریہ کو ملک کے عوام کی کتنی تعداد پر مسلط کرنے میں کامیاب ہوسکے گا؟۔ یہ لوگ اس نظریہ کے ذریعہ ملک کو پسماندگی کی طرف لے جائیں گے کیونکہ جب جب ان لوگوں نے ایسی مہم چلائی ہے، ملک کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے لیکن یہ حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لئے توجہ طلب ہیں۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
اگر مسلمان بیدار ہیں تو وہ مستقبل کی تیاری کرسکیں گے کیونکہ وہ خود کو آر ایس ایس کے جاہلانہ اور گرے پڑے ماحول میں جینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ مسلمانوں نے آر ایس ایس کے منصوبوں کا توڑ بنانے کا عمل شروع کیا ہے تو انہیں مستقبل میں کوئی جوکھم نہیں، لیکن غفلت کا شکار ہوں گے تو پھر کون کون کچلے جائیں گے یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ فی الحال ملک کو تباہی کی طرف لے جانے والے یہ لوگ اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں تو ملک کے قانون اور انصاف کو آگے آنے کی ضرورت پڑتی ہے لیکن اس وقت ملک کا قانون اور سماج اپنی ذمہ داریوں کو ایک نظریہ کی حامل تنظیم کی دہلیز پر ماتھا ٹیکتے دیکھا جا رہا ہے۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
بھاگوت نے مسیحیوں کی مذہبی کتاب انجیل کی ایک کہانی کا حوالہ دے کرجس میں ایک ہجوم ایک عورت کو سنگسار کرنے کے لئے جمع ہوا تھا، کہا کہ موب لنچنگ یا ہجومی تشدد ایک غیر ملکی تصور ہے اور یہ ہندوستان میں کبھی نہیں ہوا۔ کچھ لوگ ’لنچنگ‘ کے نام پر ملک کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لنچنگ اگر غیر ملکی تصور ہے تو پھر آر ایس ایس اور ہندوتوا کی تنظیمیں اس کے خلاف آواز کیوں نہیں اٹھاتی ہیں۔ عام طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ سیاسی پشت پناہی کے سبب ہجومی تشدد کے مرتکبین قانون کی گرفت میں نہیں آتے جس کے سبب ان واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
وطن عزیزمیں ہجومی تشدد تیزی سے بڑھ رہا ہے، یہاں تک کہ یہ ایک بیماری بن چکا ہے مگر افسوس کہ اقتداراعلیٰ پرقابض رہنما یہ تواعتراف کرتے ہیں کہ موب لنچنگ ہندوستانی تہذیب کے خلاف ہے مگر سرعام جان لیوا ہتھیاروں سے لیس انتہا پسندوں کی ٹولی کے خلاف کسی طرح کی کارروائی نہ کر کے انہیں ایسا کرتے رہنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی کو اس پر قابو پانے کے لئے اس کے خلاف بولنا چاہیے، اگر وہ خاموش رہے تو اس جمہوریت کا بس خدا ہی مالک ہے۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
حکومت پرسوال اٹھانے یا اس کے طرزعمل کی تنقید کرنے والوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا گیا ہے یہ تو آئے دن سامنے آتا رہتا ہے جس کی سب سے بڑی مثال ملک کے 49 سرکردہ دانشوروں اور فنکاروں کے ذریعہ ملک کے وزیراعظم کو لکھا جانا ہے۔ ان معروف شخصیات کا گناہ صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ہجومی تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اور عوام میں پائی جا رہی دہشت کی طرف وزیر اعظم کی توجہ مبذول کرانے کے لئے انہیں خط لکھ کرموجودہ ماحول کو بہتر بنانے کی نصیحت کی تھی، جس پرعدم پرداشت کا پاٹھ پڑھانے اورامن پسند معاشرے کی حب الوطنی کا ثبوت مانگنے والے مخصوص فرقے نے انہیں غدار کے زمرے میں رکھ کران کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
ہجومی تشدد مذہبی نفرت کے نام پر ہو یا بچہ چوری کے نام پر کی جارہی ہو، یہ ملک میں ایک بیماری کی طرح پھیل رہی ہے۔ دانشورطبقہ نے وزیراعظم کی توجہ اس طرف دلا کرکوئی جرم نہیں کیا تھا بلکہ اظہار رائے کی آزادی کا اپنا حق استعمال کرتے ہوئے انہوں نے صحیح کام کیا تھا۔ ہم سبھی بے خوف وخطر قومی اہمیت کے معاملات کی طرف وزیراعظم کی توجہ دلا سکتے ہیں تاکہ وہ مناسب قدم اٹھا سکیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اظہار کی آزادی کے حق کی حمایت کریں گے۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Oct 2019, 9:10 PM IST