بات چیف جسٹس آف انڈیا کے تبصرے سے شروع کرتے ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دنوں تبلیغی جماعت پر کورونا پھیلانے کے الزام کے حوالے سے کہا کہ میڈیا خبروں کو بہت زیادہ فرقہ وارانہ رنگ دے کر پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ہندوستان کا نام بدنام ہوتا ہے۔ انھوں نے الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے رویے پر بہت سخت تنقید کی اور کہا کہ خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والو ں کے خلاف حکومت کو کارروائی کرنی چاہیے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
تبلیغی جماعت کے حوالے سے میڈیا رپورٹنگ پر ملک کی مختلف عدالتیں انتہائی سخت تبصرے کر چکی ہیں۔ سپریم کورٹ سے لے کر نچلی عدالتوں تک نے تبلیغی جماعت پر عاید کیے جانے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور ان کے رضا کاروں کے خلاف درج ایف آئی آر خارج کی ہیں۔ انھوں نے میڈیا کو بارہا لتاڑا اور اسے ملک کا ماحول خراب نہ کرنے کی نصیحت کی ہے۔ لیکن میڈیا کے رویے میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ اگر چہ اس نے تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنی خطرناک اور بدترین رپورٹنگ کا سلسلہ بند کر دیا ہے لیکن اس کی مسلم مخالف مہم ابھی بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
چیف جسٹس نے کہا کہ تبلیغی جماعت کے تعلق سے جو فرقہ وارانہ رپورٹنگ ہوئی اس سے دنیا میں ہندوستان کی بدنامی ہوتی ہے۔ لیکن صرف اسی وجہ سے ہندوستان کی بدنامی نہیں ہو رہی ہے اور بھی چیزیں ہیں جو ہندوستان کی بدنامی کا سبب بن رہی ہیں۔ میڈیا کو اب ایک نیا ہتھیار مل گیا ہے۔ یعنی طالبان نامی ہتھیار۔ وہ اب طالبان کی آڑ میں ملک کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کہیں کسی مسلمان کی جانب سے کوئی ایسا بیان سامنے آگیا جس سے طالبان کی حمایت کا ہلکا سا بھی پہلو نکلتا ہو تو اس کا ہوا کھڑا کر دیا جاتا ہے اور تل کا تاڑ بنا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ تمام مسلمانوں کو بدنام کیا جا سکے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
حالانکہ عام مسلمانوں کی جانب سے طالبان کی قطعاً حمایت نہیں کی گئی ہے۔ اگر چند ایک لوگوں نے کوئی ایسا بیان دیا ہے کہ اس سے طالبان کی حمایت کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورے ملک کے مسلمان ویسا ہی سوچتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی امن پسندی اور حب الوطنی پر شک کرنے والے خود محب وطن نہیں ہیں۔ خواہ وہ بی جے پی کے لوگ ہوں یا آر ایس ایس کے یا پھر حکومت میں شامل لوگ۔ ان لوگوں کی جانب سے یہ مطالبہ کرنا کہ مسلمان طالبان کی مذمت کرنے والا بیان دیں سراسر غلط اور ناپسندیدہ موقف ہے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
یہاں یہ ذکر بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف مسلمانوں سے ایسی توقع رکھی جا رہی ہے کہ وہ طالبان کی مذمت کرنے والا بیان جاری کریں اور دوسری طرف خود حکومت ہند طالبان سے مذاکرات کر رہی ہے۔ دوحہ میں ہندوستان کے سفیر دیپک متل کی طالبان کی سیاسی قیادت کے سربراہ شیر محمد عباس استانکزئی سے ملاقات کو آخر کیا نام دیا جائے گا۔ ایک طرف حکومت ان سے رابطہ کر رہی ہے اور ٹھیک ہی کر رہی ہے۔ کیونکہ یہ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہندوستان طالبان کے ساتھ روابط قائم کرے تاکہ افغانستان میں ہندوستان کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی کی جانب سے طالبان کی آڑ میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ صرف خبروں کو فرقہ وارانہ رنگ میں پیش کرنے سے ہندوستان کی بدنامی نہیں ہو رہی ہے بلکہ طالبان کی آڑ میں ملکی ماحول کو فرقہ واریت کے رنگ میں رنگنے سے بھی ہو رہی ہے۔ لیکن یہ حکومت، آر ایس ایس اور بی جے پی کی منافقت ہے کہ ایک طرف حکومت طالبان سے رابطہ قائم کر رہی ہے اور دوسری طرف مذکورہ عناصر طالبان کے نام پر مسلم دشمن ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
دراصل یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ حکومت جب سے آئی ہے وہ اپنا ہر قدم انتخابی فائدے کو ذہن میں رکھ کر اٹھا رہی ہے۔ کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد گجرات کے سومناتھ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک پروگرام میں بولتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کی بنیاد پر کوئی حکومت قائم تو کی جا سکتی ہے لیکن وہ تادیر نہیں چل سکتی۔ ان کا براہ راست اشارہ طالبان کی طرف تھا اور اس کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بنانا تھا۔ ایسا بیان دینے کی وجہ اترپردیش سمیت ملک کی پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات ہیں۔ ظاہر ہے جب اس قسم کے بیانات دیئے جائیں گے تو ان کا اثر عوام پر پڑے گا اور وہ ایک خاص ذہن بنانے کی کوشش کریں گے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
آسام پولیس کی کارروائی کو اسی کوشش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نے چودہ مسلمانوں کے خلاف یو اے پی اے لگا دیا اور انھیں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا۔ اس کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں نے طالبان کی حمایت کی تھی۔ اور چونکہ پولیس کی نگاہ میں طالبان دہشت گرد ہیں اس لیے ان مسلمانوں نے دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ اگر کسی مسلمان نے دہشت گردی کی حمایت کی ہے تو اس کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن سوال یہ ضرور اٹھتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے بیانات اتنے خطرناک تھے کہ ان پر یو اے پی اے جیسا سنگین قانون لگا دیا جائے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
ایک طرف نریند رمودی کی قیادت میں بی جے پی نے مسلمانوں کو سیاسی طور پر غیر اہم بنا دیا ہے اور دوسری طرف بی جے پی اور آر ایس ایس والے مسلمانوں کے نام پر ملک میں فرقہ وارانہ ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مسلمانوں کے ووٹوں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے تو پھر ان کے نام پر ہندووں کے ایک بڑے طبقے کے ذہن کو خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ 2014 اور پھر 2019 میں مسلمانوں کے ووٹوں کے بغیر بھی بی جے پی کو زبردست اکثریت حاصل ہوئی۔ اس نے سیکولر ووٹوں کو بھی غیر اہم بنا دیا تو پھر اس منافقت کی کیا ضرورت ہے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ سنگھ پریوار کو ایک دشمن چاہیے جس کا ہوا کھڑا کرکے ہندووں کے ایک طبقے کو ڈرایا جائے، ان میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا جائے اور پھر ان کے ووٹوں پر قبضہ کیا جائے۔ سنگھ پریوار کیوں نہیں مسلمانوں کو چھوڑ دیتا کہ وہ اپنے طور پر جو کرنا چاہیں کریں۔ اس نے ان کی سیاسی حیثیت بھی ختم کر دی اور ان کو انتخابی میدان میں زندہ بھی رکھا ہے۔ سنگھ پریوار اور خاص طور پر بی جے پی اور اس کے حامیوں کو یہ منافقت چھوڑنی ہو گی۔ لیکن کیا وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہرگز نہیں۔ کیونکہ یہ منافقت ہی اس کو سیاسی طور پر مضبوط بنا رہی ہے۔ آج طالبان کا ایشو ہے کل کوئی اور ایشو آجائے گا۔ اگر آئے گا نہیں تو پیدا کیا جائے گا۔ تاکہ ایک نام نہاد دشمن کھڑا کرکے ہندووں کے بڑے طبقے کو ورغلایا جائے اور ووٹوں کی فصل کاٹی جائے۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Sep 2021, 10:40 PM IST
تصویر: پریس ریلیز