ابھی اس شام جب میں برکلے یونیورسٹی سے راہل گاندھی کا لائیو ٹیلی کاسٹ دیکھ رہی تھی تو مجھے یہی خیال آیا کہ کاش راہل تھوڑی دیر اور بولتے کیونکہ وہ جو کچھ بول رہے تھے وہ بہت لوجیکل لگ رہا تھا۔ ان کی باتیں سن کر یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ سچ بول رہے تھے اور ان کی باتیں حقیقت پر مبنی تھیں۔ راہل آج کے ہندوستان کی تلخ حقیقت بیان کر رہے تھے جہاں سیاسی قتل ایک عام بات ہوتی جا رہی ہے۔
راہل بے حد اطمینان اور ایمانداری سے ہر مسئلہ پر اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے خواہ وہ خاندانی وراثت ہو یا تاناشاہی، کشمیر کے بارے میں بھی جو انھوں نے کہا وہ محض حقائق پر ہی مبنی نہیں تھا بلکہ حقیقت بھی وہی ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ کشمیر میں اتنا غم و غصہ پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا جیسا ان دنوں نظر آ رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیر میں برسوں سے حالات نارمل نہیں تھے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی اور پی ڈی پی اتحاد نے حالات بد سے بدتر کر دیے۔
پچھلے تین برسوں میں اس ملک میں ایک عجیب ماحول بنا دیا گیا ہے۔ راہل گاندھی جب بھی کچھ بولتے ہیں تو اس کا مذاق بنایا جاتا ہے۔ آخر کیوں! شاید اس لیے کہ وہ الفاظ اور حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہیں کرتے یا وہ گھڑیالی آنسو نہیں بہاتے۔ ہم سیاستدانوں کی لچھے دار گفتگو اور تقریر کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اب ہم ہر جھوٹ کو سچ سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اب وہ وقت آ گیا ہے کہ ہم راہل گاندھی کی صاف گوئی اور سچی سیدھی طرز گفتگو کو تسلیم کیا جائے۔ یہاں یہ بھی عرض کر دوں کہ آج کے ماحول میں ایسی سچی، سیدھی باتیں کرنے والے عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایک ایسے ہی لیڈر کواپنا لیڈر تسلیم کروں گی جو کہ راہل کی طرح سچی اور سیدھی باتوں کا عادی ہو۔
آج کے سیاسی نقاد کانگریس اوربی جے پی دونوں کو ایک ہی پلڑے میں تولتے ہیں، لیکن اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں صدق دل سے یہ اعلان کر سکتی ہوں کہ کانگریس راج میں اس ملک کے عوام اور بالخصوص اقلیتیں آج سے ہزار گنا زیادہ خوش و خرم اور محفوظ تھے۔
Published: 14 Sep 2017, 9:17 PM IST
آنگ سان سوکی قطعاً امن کی پجاری نہیں ، تو پھر یہ نوبل انعام کیوں!
جیسے جیسے روہنگیا پناہ گزینوں کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے ویسے ویسے ہر لب پر یہی سوال ہے کہ میانمار کی حاکم آنگ سان سوکی کو نوبل امن انعام سے کیوں نوازا گیا، یہ انعام ان کو سن 1991 میں دیا گیا تھا ۔ یہ تو اب واضح ہے کہ ان کے دل میں امن کے لئے کو ئی جگہ نہیں ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اب ان پر قتل وغارت گری کا الزام عائد ہونا چاہیے ۔ ان پر روہنگیا مسلمانوں کی نسل کی نسل ختم کرنے کا الزام لگنا چاہیے۔ کیو نکہ برما میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ نسل کشی کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔
اس سے بھی بڑھ کر ستم تو یہ ہے کہ یہاں ہندوستان سے ہزارہا روہنگیا مہاجر پھر میانمار واپس قتل کے لئے بھیجے جا رہے ہیں اور ہم خاموش تماشائی بن کر اپنی آنکھوں کے سامنے یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
Published: 14 Sep 2017, 9:17 PM IST
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Sep 2017, 9:17 PM IST
تصویر: پریس ریلیز