کل کرناٹک میں کانگریس اور جنتا دل سیکولر اتحاد کی حکومت ایوان میں اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی اور اس سے جدا نتائج کی کوئی امید بھی نہیں کر رہا تھا کیونکہ یدی یورپا کی قیادت میں بی جے پی کسی بھی حال میں وہاں اپنی حکومت قائم کرنا چاہتی تھی۔ بی جے پی نے اپنی حکومت کے قیام کے لئے تمام ہتھ کنڈے استعمال کیے۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اسمبلی انتخابات کے نتائج آنے کے بعد بھی بی جے پی نے اپنی حکومت بنائی تھی لیکن تمام کوششوں کے با وجود وہ اعتماد کا وو ٹ حاصل نہیں کر پائی تھی کیونکہ کانگریس-جنتا دل سیکولر کا اتحاد تازہ اور مضبوط تھا لیکن اس کے با وجود بی جے پی نے ریاست میں حکومت تشکیل کرنے کی اپنی کوششیں نہیں چھوڑی تھیں۔
Published: undefined
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے بعد بی جے پی نے نئے حوصلہ کے ساتھ حکومت گرانے کی کوششیں دوبارہ شروع کر دیں تھیں، اب اس کے لئے آسانی بھی ہو گئی تھی کیونکہ اتحاد کے کئی ناراض ارکان اسمبلی کو بی جے پی میں اپنا محفوظ مستقبل کی ضمانت نظر آئی۔ اتحاد کے کئی ارکان باغی ہوگئے، بی جے پی نے کماراسوامی حکومت کے خلاف مورچہ کھول دیا۔ کماراسوامی اور کانگریس کے کئی رہنماؤں نے حکومت بچانے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کامیابی نہیں ملی۔
Published: undefined
حکومت کس کی گری اور اب کس کی بنے گی یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ حکومت کیسے گری اور کیسے بنے گی۔ ظاہر ہے گرانے میں جو طریقہ اپنایا گیا اس میں لالچ اور بدعنوانی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ جن ارکان نے بغاوت کی ان کے بغاوت کرنے کی وجہ بالکل شیشے کی طرح صاف ہے۔ ان کو کرسی اور مالی فائدوں کا لالچ دیا گیا تھا۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ جو پیسہ اور اقتدار سے طاقتور ہوگا اس کے لئے غلط طریقوں سے حکومت گرانا اور بنانا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔
Published: undefined
ایک زمانہ آیا رام گیا رام کا تھا جب بغیر کسی خوف کے ارکان اپنی سیاسی وفادریاں تبدیل کرلیا کرتے تھے لیکن پھر اینٹی ڈفیکشن قانون بنا اور اس پر کسی حد تک روک لگ گئی لیکن پچھلے کچھ سالوں کے سیاسی حالات نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس قانون کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے۔ اب ضرورت ہے کہ جو ارکان بغاوت کرتے ہیں یا سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں ان کی تعداد بھلے کتنی بھی ہو ان ارکان کی رکنیت فوری ختم ہو جانی چاہیے اور ان کو دوبارہ عوام کے پاس جانا چاہیے کیونکہ عوام جس وقت اپنے لئے نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں تو اس کے ذہن میں امیدوار کی پارٹی بھی ذہن میں ہوتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined