ایک زمانہ میں جب دل کی تبدیلی کے آپریشن کی شروعات ہوئی تھی تو اسے ایک ’’طبی انقلاب‘‘ کہاگیا تھا۔ شروع شروع میں صورت حال یہ تھی کہ کبھی دل لگ جاتا تھا یا بدل جاتا تھا اور خوب کام کرتا تھا اور کبھی کبھی لگنے کے بعد بھی دل اکھڑ جاتا تھا اور آپریشن ناکام ہوجاتا تھا۔ آج بیشتر آپریشن کامیاب ہوتے ہیں اور دل خوب دھکڑ دھکڑ برسوں بعد بھی رقصاں رہتا ہے۔ ابتدائی دور میں عوام الناس میں بڑے خدشات تھے کہ دل کی تبدیلی کے ساتھ انسان کا دل تو نہیں بدل جاتا؟ یوں سمجھئے کہ کسی کا دل محبت کا خوگر تھا اور آپریشن سے جو نیا دل وہ کسی پولس والے کا عطیہ تھا تو کہیں اس دل کی تبدیلی سے عاشقانہ دل رکھنے والے میں پولس والے کے خواص تو پیدا نہیں ہوجائیں گے۔ جبکہ طبی سائنس کا کہنا ہے کہ نہیں قلبی تبدیلی اپنی جگہ مگر انسانی کے بنیادی کردار پر منتقلی قلب کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ظاہر ہے سائنسی تحقیق ہے اس کو مانے بغیر کوئی چارہ نہیں مگر ان دنوں عقل ضرور پریشان ہے کیونکہ اچانک ہمارے اردو گرد سیاسی محبتیں بڑی گرمجوشی سے رقصاں ہوگئی ہیں اس کی وجہ کیا ہے۔ مثلاً پوجیہ بھاگوت جی (آر ایس ایس کے گرو گھنٹال جن کی بھارتیہ جنتاپارٹی میں آنکھ بند کرکے پوجا کی جاتی ہے) محبت آمیز نظروں اور شہد سے میٹھی زبان کا استعمال کرکے مسلمانوں کی ستائش کررہے ہیں۔ کبھی کانگریس پارٹی کے جنگ آزادی میں اہم رول ہونے کا اقرار کررہے ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔ کیا انہوں نے کبھی دل کاآپریشن بھی کرایا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کی ماہیت قلب میں کیسے اتنی بڑی ڈرامائی تبدیلی ہوگئی۔
مجھے ابھی تک دوہفتہ قبل ان کا امریکہ میں منعقدہ عالمی ہندو کانفرنس میں دیا گیا خطبہ یاد ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ طاقتور سے طاقتور شیر کو بھی جنگلی کتوں کا جھنڈ اکٹھا ہوکر مار دیتا ہے۔ ہندو متحد ہوجاؤ تم سب سے زیادہ عقل مند اور تعلیم یافتہ ہو مگر پھر بھی تم متحد نہیں ہوتے اور اسی کا فائدہ تمہارے دشمن اٹھا رہے ہیں۔‘‘ پس منظر سے واقف لوگ خوب سمجھتے ہیں کہ جنگلی کتوں سے ان کی مراد مسلمان ہیں اور ہندو شیر ہے اور اب صرف دوہفتوں کے بعد بھارت آکر آر ایس ایس کے تین روزہ کل ہند اجلاس میں افتتاحی خطبہ میں گرو جی فرماتے ہیں کہ ہم لوگ تو بھارت جوڑنے والے ہیں توڑنے والے نہیں ہیں۔ ہم تو سب کو ساتھ ملا کر چلنے والے ہیں۔ ان کا یہ نیا خطبہ نئی دہلی کے شاندار وگیان بھون میں دیا گیا تھا۔ وہ ’’بھارت کے مستقبل‘‘ پر لیکچر دے رہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ ’’سنگھ کے لئے کوئی باہری نہیں ہے۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو ہماری مخالفت کرتے ہیں وہ بھی ہمارے اپنے ہیں۔ بس اتنی تشویش ضرور ہے کہ وہ ہمیں نقصان نہ پہنچائیں۔ اس خطبے میں انہوں نے اور بھی کئی ایسی اہم باتیں کہیں جو ان کے فلاسفی کے برخلاف تھیں اور جن کی وہ آج تک مخالفت کرتے آئے تھے۔ ان باتوں کی طرف دوبارہ لوٹوں گا۔ سہ روزہ اجلاس کے آخری دن کے الوداعی خطبہ میں بھاگوت جی نے ایسی قلابازی دکھائی کہ ہر شخص ان کی لفظی جمناسٹک سے حیران رہ گیا۔
بھاگوت جی نے سب سے پہلے تو یہ دھماکہ خیز بات کہی کہ اب سنگھ کے حلقہ دانشوران نے ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ کے بہت سے نظریات اور اقوال کو مسترد کردیا ہے۔ قارئین کی یادداشت کو تازہ کرنے کے لئے بتادوں کہ ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ سنگھ پریوار کے اولین گرو ’’گروگولوالکر‘‘ کی تقریروں کا مجموعہ ہے جس میں انہوں نے سنگھ پریوار کی نظریاتی فلاسفی اس کے نفاذ کے لئے مستقبل میں طریقہ کار اس کے نصب العین اس کی پسند اور ناپسند پر نہایت تفصیل کے ساتھ اظہارخیال کیا ہے۔ 1925 میں سنگھ کے قیام کے بعد سے گرو گولوالکر کا یہ مجموعہ ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ یعنی ’’گلدستہ خیال‘‘ سنگھ پریوار کے لئے حکم کی حقیقت رکھتا ہے۔ اس میں پیش کی گئی ہر بات پر عمل کرنا لازمی ہے۔ ایک طرح سے سنگھ پریوار کے ہر ممبر کے لئے یہ گرنتھوں کا گرنتھ ہے۔ غیر سنگھی بھاگوت جی کے اس اعلان کی اہمیت کو پوری طرح سمجھ ہی نہیں سکتے۔ ’’بنچ آف تھاٹ‘‘ کے کافی حصے کو (بظاہر) مسترد کرتے ہوئے بھاگوت جی نے کہا ’’اس میں جو کچھ تقریروں میں کہاگیا ہے وہ اس وقت کے مخصوص حالات کے مطابق کہا گیا تھا وہ ابد تک کے لئے نہیں ہے۔
سنگھ کوئی بند یا جامد تنظیم نہیں ہے۔ جیسے جیسے وقت بدلتا ہے ہماری سوچ بھی بدلتی ہے۔ سنگھ کے بانی ڈاکٹرہیڈگیوار نے پہلے ہی ہم کو اجازت دے دی تھی کہ ہمیں وقت کے ساتھ بدلنا چاہیے۔‘‘ وہ دراصل خطبہ میں اس بات کی وضاحت کررہے تھے جو انہوں نے پہلے روز کہا تھا اور ’’سنگھ مسلمانوں کو ناپسندیدہ نہیں سمجھتا۔ یہ بات گروگولوالکر کے نظریہ کے خلاف ہے۔ جنہوں نے عیسائیوں اور کمیونسٹوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی ملک میں موجود اندرونی دشمن کہا تھا۔‘‘ یہ پچھلے سترپچہتر سال میں سنگھ پریوار کے کسی گرو کی ایسی تقریر ہے جو اس کی معینہ پالیسی کے خلاف ہے جس میں لاکھ دعوؤں کے باوجود کسی قسم کی تبدیلی ناممکن ہے کیونکہ آج بھی شاکھاؤں میں ننھے بچوں کے ذہنوں میں وہی زہریلی ذہنیت گھولی جارہی ہے جو پچھلی چند سیڑھیوں سے سنگھ کا شیوہ رہی ہے۔ افتتاحی اور اختتامی خطبات میں دونوں بھاگوت جی نے کانگریس اور مسلمانوں کو موضوع سخن بنائے رکھا۔ پہلی مرتبہ کسی سنگھ گرو نے کانگریس کی ملک کی آزادی میں جدوجہد کی تعریف کی۔ کانگریس اور مہاتماگاندھی کی قربانیوں کا ذکر کیا۔ پہلی مرتبہ ترنگے جھنڈے اور ملک کے آئین کے تئیں وفادار رہنے کی بات کہی۔
Published: undefined
اجمالی طورپر میں نے ان خطبوں کا جائزہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے مگر سنگھ میں اس بنیادی تبدیلی کی کیا وجوہات ہیں۔ اور کیا یہ سب باتیں محض گمراہ کن باتیں ہیں یا ان کے پیچھے تھوڑا بہت خلوص بھی ہے یہ سمجھنے کے لئے مستقبل میں جھانکنا پڑے گا۔ پہلی سچائی تو یہ ہے کہ اب آر ایس ایس کو نظر آرہا ہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی 2019 کے پارلیمانی الیکشن میں ہار رہی ہے۔ خود سنگھ پریوار کے خفیہ سروے کے مطابق بھاجپا الیکشن میں اگر بہت اچھی کارکردگی دکھاپائی تو بھی ڈیڑھ سو سے دوسو سیٹوں پر آکر رک جائے گی۔ لامحالہ جو سیٹیں بھاجپا ہارے گی وہ دوسری غیر فرقہ پرست جماعتوں کے کھاتے میں جائیں گی۔ آج جس طرح غیر فرقہ پرست جماعتوں نے بھاجپا کے خلاف لام بندی کرلی ہے ایسی صورت میں بھاجپا کو حکومت بنانے کے لائق حلیف ملنے مشکل ہوجائیں گے۔ اس لئے سنگھ کے گروجی بھاجپا کے متوقع حلیفوں کے لئے زمین ہموار کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیونکہ بھاجپا کی حکومت کو قائم رکھنا۔ سنگھ کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے۔ بھاگوت جی کے اس بیان کے بعد بھاجپا یہ کہنے کے قابل ہوجائے گی کہ ہم پہلے والے بھاجپائی نہیںہیں۔ سنگھ پریوار نے اپنے خیالات کو پہلے ہی تبدیل کرلیا تھا اب تو وہ بھی ترنگے جھنڈے اور آئین کی پابند ہوگئی ہے اور سنگھ کی مسلم دشمنی بھی ختم ہوگئی ہے۔ اس لئے ہمارے حلیف بن کر حکومت بنالو۔
سنگھ پریوار کے ذریعہ حالیہ تاریخ میں پہلی بار کانگریس کی تعریف کا مقصد بھی صاف ہے۔ سنگھ پریوار سے وابستہ تنظیموں نے ملک میں نفرت، تشدد اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر پھیلادیا کہ مستقبل میں ملک کی سلامتی ویکجہتی خطرہ میں نظر آنے لگی۔ اس لئے کانگریس کے نئے صدر راہل گاندھی نے پنڈت جواہر لال نہرو کے بعد پہلی مرتبہ آر ایس ایس کے خلاف جنگ کا علم اٹھایا اور کھلے عام سنگھ پریوار کو فرقہ پرستی کا مجرم اور گاندھی کے قاتل قرار دیا۔ جواب میں سنگھ کی جماعتوں نے راہل گاندھی پر مقدمہ دائر کردیا۔ معاملہ زیر سماعت ہے۔ لیکن سنگھ پریوار کو صاف نظر آرہا ہے کہ اب اگر کانگریس اقتدار میں آگئی تو ان کی تنظیموں پر پابندی لگ سکتی ہے۔ پہلے بھی دومرتبہ گاندھی جی کے قتل کے بعد اور ایمرجنسی کے دوران کانگریس کی حکومتوں نے سنگھ پر پابندی لگا کر ان کے لیڈروں کو جیل میں بند کردیا تھا اور یہ بہادر سنگھی رات کی تاریکی میں اپنی نیکر جلاتے نظر آتے تھے۔ چنانچہ پابندی لگنے کے ڈر سے سنگھ پریوار کے گروجی نے اپنی بنیادی پالیسیوں میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ اگر پابندی کے خلاف عدالت جانا پڑے تو کہہ سکیں کہ ہم تو اپنی ملک دشمن متنازعہ پالیسیوں کو بہت پہلے ہی چھوڑ چکے ہیں۔ اور ہم ملک کے سیکولر آئین میں پورا یقین رکھتے ہیں۔ سنگھ کو یہ خدشہ بھی ستارہا ہے کہ دوسری تمام جماعتیں سنگھ پر پابندی کی حمایت کریں گی اور سنگھ پہلے کی طرح یکہ وتنہا رہ جائے گی۔
اس سیاسی قلابازی کا ایک پہلو اور بھی ہے۔ اس وقت انسانی حقوق، اقلیتی حقوق اور نسلی امتیاز کے خلاف کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی دوربینیں بھارت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ مسلمانوں کی موب لنچنگ (ہجومی تشدد) دلتوں کے ساتھ بے انتہا مظالم اور غلط سلوک کو لے کر کئی مرتبہ بھارت کو معتوب کیا جاچکا ہے۔ امریکہ کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے تو بہت واضح طورپر بھارت کو انسانی حقوق کا مجرم قرار دیا ہے۔ مرکزی حکومت سخت دباؤ میں ہے۔ اس لئے سنگھ پریوار کے مکھیا کو حالات کو نرم کرنے کے لئے سیاسی قلابازی کھانی پڑی۔ تاکہ کہیں کوئی ان معاملات کو لے کر بین الاقوامی عدالت میں نہ پہنچ جائے اور بھارت سرکار کو مجرم قرار دے دیا جائے۔ بین الاقوامی عدالت کا ایسا فیصلہ 2019میں ہارتی ہوئی بھاجپا کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ بہرحال ظالموں کو اپنے مظالم کا حساب تو کسی نہ کسی دن دینا ہی پڑے گا۔ سانپ کتنی بھی مرتبہ اپنی کینچلی بدل لے مگر وہ سانپ ہی رہے گا!
تیرے وعدہ پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
چند باتیں بیان دینے کے عادی مفتیوں، عالموں، اماموں اور پرہیزگاروں سے بھی ہوجائیں۔ براہ خدا سنگھ پریوار کے اس کینچلی بدلنے پر بیان بازی نہ کریں۔ اور کم ازکم خیرمقدم والے بیانات سے تو بالکل درگزرکریں۔ کیونکہ ان کے ایسے بیانات سے عام مسلمان گمراہ ہوسکتے ہیں۔ ان کے ووٹ منتشر ہوسکتے ہیں۔ ہم کو ہمیشہ ووٹوں کے انتشار سے ہی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ جہاں تک پیشہ ور ملی جماعتوں کا تعلق ہے جو غیر ممالک سے کروڑوں روپے سالانہ کی امداد حاصل کرتی ہیں۔ وہ سب آرایس ایس کے گروجی کے اس بیان پر زبردست گرمجوشی کا مظاہرہ کریں گی۔ بیان کا خیرمقدم کریں گی آپ سے کہیں گے۔ اللہ کی شان دیکھو اس نے کیسے بھاری دشمن کو موم کردیا ہے۔‘‘ یہ نہیں بتائیں گے کہ اگر ہم نے ذرا بھی مخالفت کی تو باہر سے آنے والے کروڑوں روپے کی امداد پر روک لگادی جائے گی۔ کیا آپ نے ان بڑی بڑی مسلم جماعتوں، تنظیموں کو کبھی مسلمانوں کے اہم شرعی مدعوں پر مردانہ انداز میں بولتے دیکھا ہے۔ یہ بول ہی نہیں سکتے کیونکہ کروڑوں روپے کا معاملہ ہے۔ بہرحال عام مسلمانوں کو ایک حدیث سناکر اپنی بات ختم کرتا ہو۔ حدیث کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’’مومن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جاسکتا‘‘ آقاؐ کی اس بات پر غوروفکر کریں!
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز