گورکھ ناتھ کے گرو اور شمالی ہندوستان میں ناتھ فرقہ کی بنیاد رکھنے والے متسیندر ناتھ اپنی تصنیف ’اکُل ویر تنتر‘ (87-78) میں کہتے ہیں کہ بچوں والی سمجھ رکھنے والے لوگ لگاتار یہ قانون بناتے رہتے ہیں کہ مذہب کیا ہے اور سچا راستہ کیا ہے، اور پاک کیا ہے و ناپاک کیا ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ ان کے آج کے مرید اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ اس سے متفق ہوں گے یا نہیں، لیکن گرو متسیندر ناتھ کے مطابق مذہب کے نام پر مشتہر باتوں اور ضابطوں سے اوپر اٹھ کر ہی سچا علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کولپنشد، کول اصول (ہاں، کشمیری عرفی نام یہیں سے آیا ہے) کا مختصر لیکن انتہائی گہرا انتظام، ایک قدم اور آگے جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک ہی چیز ممنوع ہے اور وہ ہے عوام کی تنقید۔ سچا علم، روحانیت کا مطلب ہوتا ہے کسی اُپواس، بھوج یا اس سے متعلق ضابطوں پر عمل نہ کرنا اور کسی فرقہ کو شروع کرنے کی خواہش نہ رکھنا۔ سب کو یکساں طور پر بنایا گیا ہے اور جو یہ سمجھ لیتا ہے وہی اصل میں آزاد ہو پاتا ہے۔
سبزی خوری سمیت کئی چیزوں کی سیاست اور کند نظریے سے متاثر آج کے سیاسی اقتدار کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ سچی ہندوستانی ثقافت پر نظر ڈالے جو کہ تشدد پسند لوگوں کی سمجھ سے باہر ہے اور جسے وہ زمین پر اتارنے میں ناکام ہیں۔ میری ماں کے استاد عظیم ادھیتا ہزاری پرساد دویدی نے تاریخ کی صحیح سمجھ کے لیے ’شاکت تنتر‘ سے ایک بار ایک کمال کا تعارفی لفظ استعمال کیا تھا۔ انھوں نے اسے ’شَو سادھنا‘ کہا تھا۔ ایک ’تانترک سادھک‘ نے اس لفظ کا استعمال انھیں یہ سمجھانے کے لیے کیا تھا کہ کس طرح سچا علم (سِدھی) حاصل کریں، مسان (وہ جگہ جہاں جسم خاک میں تبدیل ہو جاتا ہے) پر ایک مردہ جسم کو ڈھونڈنے کے بعد اس کے سامنے پاؤں پھیلا کر بیٹھنا اور پھر اپنے ارد گرد کی ہر چیز کو بھول کر دھیان لگانا۔ یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے جس کے دوران بری طاقتیں نصف سچائی سے بھرے تمنائی کی توجہ بھٹکانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں، لیکن وہ پھر بھی غرق ہو اور توجہ مرکوز کیے رہے، کسی بھی وقت لاش کی پیشانی پوری طرح گھوم جاتی ہے اور لگاتار سادھنا میں لگے سادھک سے اس کا سامنا ہوتا ہے، اس کے بعد سادھک کی ساری تمناؤں کو خاموش کرتے ہوئے وہ سب سے اچھے علم کی تشریح کرتا ہے۔
اس تصویر کے بارے میں سوچیں: پاکیزہ علم غیر محرک عمل کے ذریعہ دیا جا رہا ہے جس میں 360 ڈگری کے سرے پر پیشانی ہے اور جو نہ تو نئے نہ ہی پرانے، زندگی کے روایتی یا معلوم شکل کے تئیں اپنا رشتہ ظاہر کرتا ہے۔
اسی طویل فلسفیانہ ضمن میں ہندوستان میں گوشت کھانے کی طویل تاریخ کے انتہائی فسادی موضوع کو ٹھیک سے سمجھا جا سکتا ہے۔
Published: 26 Apr 2018, 4:17 PM IST
اب تک اس بات پر کافی تاریخی دلائل سامنے آ چکے ہیں کہ سندھو گھاٹی کے وقت سے گوشت اور مرغی پروری سے بنی غذا کا ہندوستانی لوگ استعمال کرتے رہے ہیں۔ مویشی یعنی بھیڑ، بکرا، کچھوا، گھڑیال، مچھلی، پرندہ وغیرہ۔ ویدوں میں 250 جانوروں کے بارے میں بتایا گیا ہے جن میں 50 کو بَلی دینے اور کھانے کے لیے درست پایا گیا۔ بازار میں الگ الگ طرح کا گوشت فروخت کرنے والوں کی دکانیں تھیں مثلاً گوگاتک (مویشی)، اربیکا (بھیڑ)، شوکاریکا (خنزیر)، ناگریکا (ہرن)، شاکنتیکا (پرندہ)۔ گھڑیال اور کچھوے (گِدّابُدّکا) کے گوشت کی الگ دکانیں ہوتی تھیں۔ رِگ وید میں گھوڑا، بھینس، بھیڑ اور بکرے کو بَلی دینے لائق جانوروں کے طور پر بتایا گیا۔ رِگ وید کے 162ویں شلوک میں حکمرانوں کے ذریعہ دی جانے والی گھوڑے کی بَلی یعنی قربانی کی تفصیل دی گئی ہے۔ ویدوں میں الگ الگ دیوتاؤں کی الگ الگ جانوروں کے گوشت میں دلچسپی تھی۔ اَگنی کو بیل اور بانجھ گائے اچھی لگتی تھی، رودر کو لال گائے، وِشنو کو ناٹے بیل، اندر کو ماتھے پر نشان اور لٹکتے سینگ والے بیل پسند تھے جب کہ پُشان کو کالی گائے پسند تھی۔ بعد میں مرتب برہمن گرنتھ میں بتایا گیا کہ خاص مہمانوں کے لیے موٹے بیل یا بکروں کی بَلی دینا ضروری ہے۔ تیتریہ اُپنیشد میں رِشی اگستیہ کے ذریعہ سینکڑوں بیلوں کی بَلی دینے کی تعریف کی گئی ہے۔ اور ویاکرن وِد پانینی نے مہمانوں کے اعزاز کے لیے ایک نئے لفظ گوگھنا (گائے کا قتل) کی تعمیر ہی کر دی تھی۔
ہمیں پتہ چلتا ہے کہ گوشت کو سیک میں بھونا جاتا تھا یا کنڈ میں اُبالا جاتا تھا۔ برہدارنیہ اُپنیشد میں گوشت کو چاول کے ساتھ پکانے کا تذکرہ ہے۔ رامائن میں بھی دَنڈکارنیہ جنگلوں کے سفر کے دوران رام، لکشمن اور سیتا کے ذریعہ ایسے چاول (گوشت اور سبزی کے ساتھ) سے لطف اندوز ہونے کا تذکرہ ہے۔ اسے ’ممسمبھوتدانا‘ کہا جاتا تھا۔ ایودھیا کے محل میں راجہ دشرتھ کے ذریعہ دی جانے والی بَلی کے دوران کافی انوکھے پکوانوں کا تذکرہ ہے جن میں پھل کے رَسوں کے ساتھ بکرے، خنزیر، مرغے اور مور کے گوشت کو پکایا جاتا تھا۔ کئی پکوانوں میں لونگ، کالا زیرا اور مسور دال کو بھی ڈالا جاتا تھا۔ مہابھارت میں گوشت کے قیمے (پستہ دانا) کے ساتھ چاول پکانے کا تذکرہ ہے اور جنگلوں کی دعوت میں کئی طرح کے پرندوں کو بھون کر پیش کیا جاتا تھا۔ بھینس کے گوشت کو سیندھا نمک، کالی مرچ کے ساتھ پھل کے رس، ہینگ، کالا زیرا ڈال کر گھی میں تلا جاتا تھا اور اوپر سے مولی، اَنار، لیموں ڈال کر سجایا جاتا تھا۔
اس کے بعد ’بودھ جاتک‘ اور ’برہت سنہیتا‘ میں بھی کئی گوشت کے پکوانوں کی فہرست ہے۔ سب ملا کر ایسا لگتا ہے کہ اس وقت تک گوشت کو غذائیت سے بھرپور مانا جاتا تھا۔ مشہور ڈاکٹر چرک نے بھی دبلے پتلے، محنت کرنے والے اور طویل بیماری سے نبرد آزما لوگوں کو ایسے کھانوں کا استعمال کرنے کہا تھا۔ جین مذہب کے ماننے والے لوگوں میں جانوروں کے قتل سے منع کیا گیا تھا، لیکن بودھوں نے گوشت کھانا نہیں چھوڑا تھا۔ اگر بودھ فقیروں کو گوشت بھیک میں ملا ہو بشرطیکہ جانور کا قتل سنیاسی کی موجودگی میں نہ ہوا ہو تو وہ قبول کرتے تھے۔ اسے یقینی بنانا بھیک دینے والے شخص کی ذمہ داری تھی۔
جنوب میں گوشت اور مچھلی کھانے کے تئیں جھجک استثناء ہے۔ 300 عیسوی میں کھان سے متعلق لکھی گئی شروعاتی تصنیف میں گوشت بنانے کے لیے کالی مرچ کا تذکرہ اہم مسالے کی شکل میں کیا گیا ہے۔ تلے ہوئے گوشت کے تین نام تھے اور ٹماٹر و کالی مرچ کے ساتھ اُبلے ہوئے گوشت کو پلنگری کہا جاتا تھا۔ سنگم دور کے مشہور برہمن پجاری کپیلار نے گوشت اور شراب کے استعمال کے لطف کا تذکرہ کیا ہے۔ پرانے تمل میں بیف کے لیے چار لفظ ہیں: وَلّورم، شوشیم، شُتّی راچی اور پدی تھیرم۔ خنزیر کے گوشت کے لیے 15 نام ہیں۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ سرحدی علاقے کے تاجروں کی بیگمات کے درمیان اسے پسند کیا جاتا تھا۔ شکاری کتوں کے ذریعہ جنگلی خنزیروں کے گوشت کو ذائقہ دار بنانے کے لیے چاول کے آٹے سے لپیٹا جاتا تھا اور خواتین سے دور رکھا جاتا تھا۔ سب سے انوکھے گوشت میں ساہی (کرووَر کے پسندیدہ) اور گھونگھا (ملّاروں کا پسندیدہ) تھے۔ جنوب میں گھریلو پرندوں (کوجھی) کو کھانا بھی ممنوع نہیں تھا۔ پورے ساحلی علاقے میں مچھلیوں اور جھینگا مچھلی کا کافی مزہ اٹھایا جاتا تھا اور یہ اس قدر تھا کہ مچھلیوں کے لیے استعمال کیا جانے والا لفظ ’مین‘ سنسکرت کی ڈکشنری میں شامل ہو گیا اور شمالی ہند کے لوگوں نے بھی سمندر کی اس غذا کا لطف اٹھانا شروع کیا۔
موجودہ عقائد کے برعکس آیوروید کے ڈاکٹروں نے گوشت کھانے سے منع نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹر منیشی سُشرت کے ذریعہ مرتب ’سُشرت سنہیتا‘ میں آٹھ اقسام کے گوشت کی فہرست دی گئی ہے۔ 13ویں صدی کے راجہ سومیشور کے ذریعہ تصنیف کردہ بتائے گئے ’مناسولّا‘ میں کھانوں پر ’اَنّ بھوگ‘ عنوان سے ایک باب دیا گیا ہے اور اس میں بھی اس طرح کا تذکرہ ہے۔ اس میں تلے اور بھنے ہوئے کلیجی کے ٹکڑے کا تذکرہ ہے جسے دہی یا کالے سرسوں کے جھول کے ساتھ دسترخوان پر پیش کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ مکمل خنزیر کو سیندھا نمک، کالی مرچ اور لیموں کے ساتھ بھُنے جانے کا بھی تذکرہ ہے جسے کھجور کے پتوں جیسی چیز میں دسترخوان پر پیش کیا جاتا تھا۔
ہندی میں کم از کم تین عظیم کتابیں ہیں جو اس صدی کے کند نظریے کو پیش کرتی ہیں: یَش پال کا جھوٹا سچ، راہی معصوم رضا کا آدھا گاؤں اور بھیسم ساہنی کی تَمس۔ یوگی راج کو صرف اس کی نقل کرنی تھی جو تصوراتی داستانوں میں پہلے ہی آ چکا ہے۔
Published: 26 Apr 2018, 4:17 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Apr 2018, 4:17 PM IST