ریگستان کے تھکے ہارے پیاسے مسافر کے لئے جیسے نخلستان کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا حیات نو کا پیغام ہوتا ہے، ویسا ہی کچھ پیغام ہریانہ سے مل رہا ہے جہاں میوات میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں ایک نوجوان پیش امام سمیت 6 افراد کی موت ہوئی ہے۔ لیکن یہ شاید پہلی بار ہوا ہے کہ عوام کھل کر فرقہ پرست عناصر کے خلاف بول پڑے اور صرف عوام ہی نہیں بی جے پی کو چھوڑ کر سبھی سیاسی پارٹیاں کھل کر اس فساد کے لئے بجرنگ دل اور اس کے دو قاتل کارکنوں مونو مانیسر اور بٹو بجرنگی کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہیں۔
Published: undefined
واضح ہو کہ گزشتہ فروری میں ناصر اور جنید نام کے دو نوجوانوں کو اغوا کر کے دو دن تک ان پر تشدد کرنے کے بعد مونو مانیسر اور اس کے گرگوں نے ان دونوں کو جیپ میں زندہ جلا دیا تھا۔ تب سے انہیں راجستھان پولیس گرفتارکرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ہریانہ سرکار نے انھیں تحفظ دے رکھا ہے۔ نوح کا حالیہ فساد بھی مونو کی اشتعال انگیز ویڈیو کی وجہ سے ہوا ورنہ حسب سابق یہ شوبھا یاترا بھی پرامن طریقے سے گزر جاتی۔ بی جے کی حلیف اور نائب وزیر اعلی دشینت چوٹالہ تک انھیں عناصر کو اس فساد کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ مودی کابینہ میں وزیر راؤ بیریندر سنگھ نے بھی اسلحہ لے کر شوبھا یاترا نکالنے اور اشتعال انگیز نعرہ بازی کے لئے بجرنگ دل کی مذمت کی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا ان کے لڑکے اور ممبر پارلیمنٹ دپیندر سنگھ ہڈا اور قومی ترجمان رہ چکے جنرل سکریٹری نیز انڈین نیشنل لوک دل کے ابھے چوٹالہ وغیرہ نے کھل کر اشتعال انگیزی کر کے اس فساد کے لئے بجرنگ دل کو ذمہ دار ٹھرایا ہے۔ سبکدوش میجر جنرل دیال نے ایک ویڈیو جاری کر کے ہریانہ کے سبھی سبکدوش فوجیوں سے اپنے اپنے علاقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی کوشش کرنے کی اپیل کی ہے اور کھل کر بجرنگ دل کی اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے۔ سب سے بڑھ کر علاقہ کے جاٹوں اور گوجروں کی پنچایتوں میں بجرنگ دل کی مذمت کرتے ہوئے اپنے لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ہر حال میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی قراردادیں منظور کی ہیں۔ سیاسی وابستگیوں سے بلند ہو کر حق بات کہنے کی یہ مثال گزشتہ دس برسوں میں تو شاید دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔
Published: undefined
گروگرام کے مقتول نوجوان امام کے اہل خانہ کی مالی امداد کے لئے راقم نے فیس بک میں اپیل کی تھی جس کے جواب میں درجنوں ہندو دوستوں نے ان کی مدد کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا۔ ادھر بہار میں پپو یادو نے فوری طور سے ایک بڑی رقم دینے کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائیوں کی تعلیم اور بہنوں کی شادی کی ذمہ داری لینے کا اعلان کیا۔ جن ملکی اور بیرونی مسلم دوستوں نے مدد کی ان کا تو شکریہ ہے ہی، لیکن جن ہندو دوستوں نے میری اپیل پر امداد بھیجی ان کو سو سو سلام ان کا ذکر خاص کر کے اس لئے کیا کہ یہ لوگ ہی بقول بشیر بدر اندھیرے میں روشنی کے امام ہیں اور یہی ہندو اس ہندستان کو فرقہ وارانہ آگ میں جلنے سے بچائیں گے۔
Published: undefined
منی پور میں معمولات زندگی کسی طرح معمول پر نہیں آ رہے ہیں۔ تشدد کی تازہ لہر میں مزید 6 افراد کی ہلاکت کی خبر ہے۔ کوکی اور میتئی عوام کے بیچ کھائی گہری سے گہری ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی ذمہ دار حکومت کی اولین ترجیح امن قائم کرنا اور عوام کے درمیان باہمی اعتماد، خیر سگالی اور بھائی چارہ کا جذبہ پیدا کرنا ہوتا ہے کیونکہ جب تک ماحول پر امن نہیں ہوگا تب تک امن عامہ برقرار رکھنے پر کھربوں روپیہ خرچ کرنا ہوگا جس کا لازمی اثر ترقیاتی پروجیکٹوں پر پڑے گا۔ ترقی اور خوش حالی کے لئے نہ کوئی قدم اٹھایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری کی امید کی جا سکتی ہے۔ لیکن بی جے پی حکومت اس معاملہ میں بالکل الٹے قدم اٹھا رہی ہے۔ وہ ہر تنازعہ میں اکثریتی فرقہ کا ساتھ دے کر ان کے ووٹ بٹورنے اور اپنی سرکار بنانے میں ہی پوری دلچسپی رکھتی ہے۔ نہ اسے ملک میں ایک پر امن اور خیر سگالی کے ماحول کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کی اور نہ ہی نئے پروجیکٹوں کے لئے سرمایہ کاری کی۔ ہر جائز ناجائز طریقہ سے الیکشن جیتنا اور اپنی سرکار بنانا ہی اس کا مقصد ہوتا ہے۔ جہاں الیکشن نہیں جیت سکتی وہاں خرید فروخت اور ڈرا دھمکا کر توڑ پھوڑ کروا کے اپنی حکومت بنا لیتی ہے۔
Published: undefined
منی پور میں فی الحال امن بحالی کا کوئی امکان بھی نہیں دکھائی دے رہا ہے اور ایمانداری کی بات تو یہ ہے کہ ڈبل انجن سرکاروں کی جانب سے ایسی کوئی کوشش بھی نہیں ہو رہی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ باہمی خیر سگالی، امن و آشتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، پرامن بقائے باہم... یہ سارے الفاظ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی شاخوں بشمول سیاسی شاخ بی جے پی کی ڈکشنری میں ہیں ہی نہیں۔ وہ دیگر تمام طبقوں خاص کر مسلمانوں، عیسائیوں اور دلتوں پر ایک خاص طبقہ کی بالادستی چاہتے ہیں اور اسی مقصد کے حصول کے لئے کام کرتے ہیں اور ان کا یہ کام یہ مشن ہمہ وقت جاری رہتا ہے، حکومت میں ہوں یا نہ ہوں۔ ہاں حکومت میں ہوتے ہیں تو ان کا یہ کام آسان ہو جاتا ہے۔ منی پور کی آگ ابھی ٹھنڈی بھی نہیں ہوئی تھی کہ دو اور بہیمانہ واقعات نے انسا نی دل رکھنے والے عوام کو ہلا کر رکھ دیا جبکہ فرقہ پرست تشدد پسند نفرتی ذہنیت کے لوگ خوشیاں منا رہے ہیں۔ چلتی ٹرین میں مسافروں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے تعینات کی جانے والی ریلوے پروٹیکشن فورس کے ایک کانسٹیبل نے چار لوگوں کو اپنی سروس بندوق سے یہ نعرہ لگاتے ہوئے موت کے گھاٹ اتار دیا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو مودی یوگی کو ووٹ دینا ہوگا۔ مرنے والوں میں الگ الگ ڈبوں میں سفر کر رہے تین مسلم مسافر تھے اور ایک خود قاتل کانسٹیبل کا سینئر پولیس افسر تھا جو راجستھان کی مینا برادری سے تعلق رکھتا ہے یعنی دلت طبقہ کا تھا۔ یہ قتل کیا اشارہ دیتا ہے۔ کیا اس نفرتی سوچ کا شکار صرف مسلمان ہیں یا دلت بھی اس کا نشانہ ہیں۔ یاد کیجئے کہیں دلتوں کو مونچھ رکھنے پر زد و کوب کیا جاتا ہے، کہیں دلت دولہے کو گھوڑے پر نہیں بیٹھنے دیا جاتا ہے، کہیں دلتوں کے منھ پر پیشاب کیا جاتا ہے۔ شرم اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ٹرین میں اتنے بہیمانہ قتل کے باوجود قاتل کانسٹیبل کو بچانے کی مہم چل رہی ہے۔ اسے دماغی طور سے معذور بتایا جا رہا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے مسلم مسافروں کو قتل کرتا ہے۔ یوگی اور مودی کو ووٹ دینے کی بات کرتا ہے اور اسے دماغی طور سے کمزور اور مفلوج بتایا جا رہا ہے۔ یہ کس کو بیوقوف بنانے کی احمقانہ کوشش ہے؟ دوسرا سوال اٹھتا ہے کہ کیا ریلوے پروٹیکشن فورس کے افسروں کو اس کانسٹیبل کی ذہنی کیفیت کا پتہ نہیں تھا۔ اگر وہ دماغی طور سے کمزور تھا تو ایسے کانسٹیبل کو ڈیوٹی پر کیوں لیا گیا اور اس کے ہاتھ میں بندوق کیسے دے دی گئی۔ ریلوے کی وزارت کی جانب سے مقتولین کے لئے ہمدردی کا ایک لفظ تک نہیں کہا گیا مقتول سینئر پولیس والے کو 40 لاکھ کا معاوضہ دینے کی بات سنائی دے رہی ہے، باقی تینوں مسلم مقتولین تو فیض کے اس شعر کی تشریح ہیں ’یہ خوں خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا‘۔ ان کو کسی قسم کا معاوضہ دینے کا سوال ہی نہیں۔
Published: undefined
راہل گاندھی نے بہت پہلے آگاہی دی تھی کہ آر ایس ایس نے پورے ملک میں نفرت کا پیٹرول چھڑک دیا ہے اور ایک چنگاری بھی پورے ملک کو جلا کر راکھ کر سکتی ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ کہ کب اور کہاں منی پور یا ہریانہ ہو جائے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کب کہاں برین واش کیا گیا کوئی نفرت میں اندھا شخص کس بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں، اگر ہریانہ کی ہی طرح بیدار ذمہ دار شہریوں نے ہمت دکھائی تو نفرت کی اس آندھی کو روکا جا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ملک نازی جرمنی فاسسٹ اٹلی ہی نہیں یوگوسلاویا، سری لنکا، شام، افغانستان، پاکستان کے راستہ پر چل پڑا ہے۔ 2024 اس آگ کو بجھانے کا آخری موقع ہے۔
(نوٹ: یہ مضمون نگار کی ذاتی رائے ہے، اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز