سیاسی

اقتدار کے نشے میں اخلاقیات کا قتل!

کیا منوہر لال کھٹر کے کشمیری لڑکیوں سے متعلق دیئے گئے بیان پر بی جے پی کی خواتین رہنما پارٹی سیاست کو ترجیح دیں گی یا صنف نازک کے لئے سماج کو ذہنیت بدلنے کے لئے مجبور کریں گی؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے اور مرکز کے زیر انتظام صوبہ بنائے جانے کی قواعد کے بعد چہار سو پائی جانے والی بے چینی کے درمیان ایک طرف جہاں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اوران کی سرکار کے وزراء لگاتار جموں و کشمیر اور وہاں کے شہریوں کو مرکزی دھارے میں لانے اور مکمل طور پر ملک سے جوڑنے کے نام پر ریاست کے شہریوں سے جذباتی اپیل کر رہے ہیں وہیں ان کی اپنی ہی پارٹی کے لیڈر سرعام ’جنت ارضی‘ کی بہو بیٹیوں کے لئے تنگ ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسے موقع پر جب کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی اورسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، بی جے پی کے لیڈر اقتدار کے نشے میں قابل اعتراض بیان بازی کرکے اخلاقیات کا قتل کرنے پرآمادہ ہیں۔ اناؤ عصمت دری معاملے پرجس کے کلیدی ملزم بی جے پی ممبراسمبلی جیل رسید کیے جاچکے ہیں، حکمراں پارٹی کی نیت سب پرعیاں ہوچکی ہے مگر یہی رویہ اب جموں و کشمیرکی بیٹیوں کے ساتھ اختیار کرنے کے لئے اکسایا جارہا ہے۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اترپردیش کے مظفر نگر سے ممبر اسمبلی وکرم سینی کا کشمیری لڑکیوں پر دیئے گئے قابل اعتراض بیان سے اٹھا طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کشمیر کی لڑکیوں کو لے کر متنازعہ بیان دے کر انتہائی غیرذمہ داری کا ثبوت دیتے نظرآئے۔ منوہر لال کھٹر نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہم اب کشمیری بہو لا سکتے ہیں۔ کھٹر نے کہا کہ ہمارے دھن کھڑ (ہریانہ کے وزیر زراعت اوم پرکاش دھن کھڑ) جی کہتے تھے کہ بہار سے کنوارے ہریانوی لڑکوں کے لئے لڑکیاں لائیں گے، آج کل لوگ کہنے لگے ہیں کہ اب کشمیر کا راستہ صاف ہو گیا ہے، کشمیر سے لڑکی لائیں گے۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

غور کرنے والی بات ہے کہ وزیراعلیٰ کھٹر یہ باتیں کسی خفیہ مقام پر نہیں بلکہ ’بیٹی بچاو-بیٹی پڑھاو‘ مہم کی مبینہ کامیابی کا جشن منانے کے لئے فریدآباد میں منعقدہ پروگرام میں بول رہے تھے جس میں مرد و خواتین کے ساتھ اسکولی بچیاں بھی کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ اتنا ہی نہیں ان قابل اعتراض الفاظ کو بولتے وقت منوہر لال کھٹر ہنسے بھی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مذاق کی باتیں الگ ہیں لیکن اگر معاشرے میں ریشو ٹھیک بیٹھے گا تو توازن ٹھیک ہوگا۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

بی جے پی حکومت والے ہریانہ میں سیکس ریشو سب سے کم ہے، اسے سدھار کی بجائے وزیراعلیٰ کھٹر کشمیر سے لڑکیاں لانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے وزیر اوپی دھن کھڑ بہار سے لڑکیاں لانے کی بات کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کے لئے لڑکیاں اورخواتین ایک جائداد کی طرح ہیں جسے جب اور جیسے چاہا استعمال کرلیا یا جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ کھٹر کے بیان ’دفعہ 370 کے منسوخ ہونے سے کشمیر سے لڑکیوں کو شادی کے لئے لایا جاسکتا ہے‘ پر ملک بھر سے سخت الفاظ میں ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے کہا کہ کھٹر سے اس معاملے میں یقینی طور پر وضاحت طلب کی جائے گی۔ شرما نے ٹوئٹ کیا کہ ان کا تصور خواتین پر، ان کے رنگ اور ان کے چہرے پر کیوں سمٹ جاتا ہے؟ وہ خواتین کے بارے میں ایسا کیسے بول دیتے ہیں؟ لوگ انہیں اقتدار کیوں سونپ دیتے ہیں؟ میں یقینی طور پر ان سے وضاحت پیش کرنے کے لئے کہوں گی۔ وہیں دہلی خواتین کمیشن کی صدر سواتی مالیوال نے تو کھٹر کو سڑک چھاپ رومیو تک قرار دے دیا۔ سواتی مالیوال نے کہا کہ منوہر لال کھٹر کو اپنے بیان پر شرم آنی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ سڑک چھاپ رومیو کی زبان بول رہے ہیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کھٹر کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی برسوں کی تربیت سے لوگوں کا دماغ کیسے کمزور اور ناکارہ ہوجاتا ہے۔ راہل گاندھی نے وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر ٹوئٹ کیا کہ کشمیری خواتین کے سلسلے میں ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کھٹر نے نفرت آمیز بیان دیا ہے۔ خواتین کوئی جائیداد نہیں ہیں جس پر مرد اپنا حق سمجھیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

اس سے پہلے مودی حکومت کے پہلے دور میں وزیر اور موجودہ راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ وجے گوئل نے ایک پوسٹر ٹوئٹ کیا تھا۔ اس پوسٹر میں لکھا کہ دفعہ 370 کا جانا تیرا مسکرانا۔ پوسٹر میں وزیراعظم مودی اور امت شاہ کے علاوہ شیاما پرساد مکھرجی بھی نظر آ رہے ہیں۔ اس پوسٹر میں ایک لڑکی مسکرا رہی ہے جو کہ کشمیری لباس میں نظر آرہی ہے۔ مذکورہ بیانات تو یہی اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی لیڈروں کو کشمیریوں کی ممکنہ خوشحالی کی ذرا بھی فکرنہیں ہے انہیں تواس بات کی خوشی ہے کہ اب وہ کشمیر کی لڑکی لاسکیں گے۔ ایسے لیڈروں کواس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کوئی بھی رشتہ قائم ہونے سے پہلے بھروسہ جیتنا ضروری ہوتا ہے ورنہ زندگی جہنم بن جایا کرتی ہے۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

اس سے پہلے بی جے پی کے ہی اتر پردیش کے مظفرنگر ضلع کے رکن اسمبلی وکرم سینی نے ایسا ہی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے پارٹی کے کارکن کافی پرجوش ہیں، جوکنوارے ہیں،ان کی شادی وہیں کرا دیں گے۔ سینی نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہیے کہ وہ اب بغیرکسی ڈر کے ’گوری‘ کشمیری لڑکیوں سے شادی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی کے کنوارے لیڈر بھی اب کشمیر جاکر وہاں پلاٹ خرید سکتے ہیں اور شادی کرسکتے ہیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

خواتین کے حوالے سے بی جے پی کے سینئرلیڈروں کی اس قابل اعتراض بیان بازی پرمودی کابینہ کی خاتون وزیر اسمرتی ایرانی اور نرملا سیتا رمن کی خاموشی سینکڑوں سوال کھڑے کر رہی ہے وہ بھی تب جب چند روزقبل ہی پارلیمنٹ میں لوک سبھا کی صدارت کر رہیں بی جے پی ایم پی پر سماجوادی پارٹی کے رکن اعظم خاں کے مبینہ قابل اعتراض بیان پرجم کر ہنگامہ کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی کی خواتین اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ہی اپوزیشن اراکین نے بھی خواتین کے تئیں اپنے احترام کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قابل اعتراض بیان ہرگز قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ایسی صورت میں مودی کابینہ کی خواتین کیسی رائے دیں گی؟ آخر وہ چپ کیوں ہیں؟۔ بی جے پی کی تمام بڑی خواتین لیڈر اناؤ معاملے پر بھی چپ تھیں اور اب وہ کھٹر کے کشمیری لڑکیوں سے متعلق دیئے گئے بیان پر بھی خاموش ہیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

کیا بی جے پی کی خواتین رہنما اس حساس معاملے میں بھی پارٹی سیاست کو ترجیح دیں گی یا صنف نازک کے لئے سماج کو اپنی ذہنیت بدلنے کے لئے مجبور کریں گی؟ میں تو یہی کہوں گا کہ اعظم خاں ہوں یا کھٹر، سینی ہوں یا دھن کھڑ، ان سب کو باور کرانا چاہیے کہ خواتین کے لئے اپنی سوچ بدلیں اور ان کا احترام کریں بصورت دیگرسماج میں ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک کشمیرسے دفعہ 370 ہٹانے کی بات ہے تواس پرجشن منانے سے پہلے اس فیصلے کا احتساب کیا جانا چاہیے، دفعہ 370 ہٹانے کے سلسلے میں تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں، وہ کہاں تک درست ہیں اور کیا ان کے اس فیصلے سے مقامی شہری خوش ہیں یاوہ خود کو ٹھگا محسوس کر رہے ہیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

کسی بھی حکومت کی کامیابی کا اندازہ اس کے عوام کے ردعمل سے لگایا جاتا ہے جب کہ حکمراں طبقے کے علاوہ کشمیر معاملے میں اب تک کسی فریق نے حکومت کے فیصلے کی تعریف نہیں کی، یہاں تک کہ این ڈی اے اتحادی بھی اپنی حکومت کے فیصلے پرانگلی اٹھا رہے ہیں۔ بہرحال مودی حکومت نے جو کیا ہے اس کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں لیکن فی الوقت کشمیرکے شہریوں میں اعتماد بحالی حکومت کے لئے سب سے بڑاچیلنج ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM IST