اللہ جانے مسلمانوں کی صلاحیتیں کہاں چلی گئیں کہ جو اُٹھتا ہے وہ بس یہ کہتا ہوا اُٹھتا ہے کہ ’’ہم چنیں دیگرے نیست‘‘ شاید 25 برس تک مایاوتی کے ساتھ ذاتی سکریٹری اور رازدار رہنے کے بعد سابق وزیر نسیم الدین صدیقی پر بھی جب تلوار چل گئی اور انہیں پارٹی سے بے ایمانی، غبن اور خرد برد کے الزام میں نکال دیا گیا تو وہ بھی دلتوں کے لیڈر بن گئے اور انہوں نے بھی مس مایاوتی کو نیست و نابود کرنے اور 2019 ء میں نریندر مودی سے اقتدار لینے کے منصوبے بنانا شروع کردیئے اور ایک پارٹی بھی بنالی۔
اس وقت شاید ایک درجن سے زیادہ مسلمان ہیں جنہوں نے پارٹی بنائی ہے اور وہ چاہتے یہ ہیں کہ دلت بھائی آئیں اور ان کے حقہ کی چلم بھریں ۔ بی جے پی نے ایسے مسلمان لیڈرون کے لئے خزانہ کھول دیا ہے جو مسلمانوں کے ووٹ سیکولر پارٹیوں کو نہ جانے دیں بلکہ سب آپس میں بانٹ لیں اور دلتوں کے لئے خزانہ کھولا ہے کہ وہ بی جے پی مخالف پارٹی کو دلتوں کے ووٹ نہ جانے دیں اپنی پارٹی بناکر آپس میں بانٹ لیں ۔
نسیم الدین صدیقی نے دہلی میں دلتوں کی پارٹیوں کو بلایا تھا شاید وہ سمجھتے ہیں کہ بہوجن سماج پارٹی کے قومی سکریٹری برسہابرس رہنے کے بعد وہ بھی اب دلت ہوگئے ہیں ۔ صدیقی صاحب نے ایک بھی مسلم پارٹی کو نہیں بلایا بلکہ انہوں نے جو کنونشن بلایا تھا اس میں ان کے کہنے کے مطابق سولہ پارٹیوں کے عہدیدار شریک ہوئے اور صرف دو مسلمان آئے جو سابق تھے۔ انہوں نے ان پارٹیوں کے مسلمان عہدیداروں کو کیوں نہیں بلایا جو شہر شہر دلت مسلم پارٹی بنائے بیٹھے ہیں ؟
نسیم الدین صدیقی برسہابرس مس مایاوتی کے سب سے بھروسہ کے ساتھی رہے انہوں نے اگر اپنی جگہ بنائی ہوتی اور ان کے اقتدار کے برسوں میں مسلمانوں کا دل کھول کر بھلا کیا ہوتا تو آج انہیں پارٹی کا نام راشٹریہ بہوجن مورچہ نہ رکھنا پڑتا وہ ایسا نام رکھتے جس میں مسلم کا لفظ بھی ہوتا۔ لیکن وہ جانتے ہیں کہ انہوں نے صرف اپنی ذات اور اپنے بیوی بچوں کے لئے تو کیا دوسرے مسلمان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اور یہ آخری درجہ کی بات ہے کہ وہ سلام یا آداب کہنا بھی بھول گئے اور بے ساختہ جے بھیم کہنے لگے۔
اب ہر کسی کے سامنے 2019 ء ہے۔ سب سمجھ رہے ہیں کہ اترپردیش کا الیکشن نریندر مودی یا بی جے پی کے لیڈر نے نہیں لڑا بلکہ وزیر اعظم اور پوری حکومت نے لڑا۔ اس کے باوجود بھی وہ نہ جیت پاتے اگر وہ فرقہ پرستی کا آخری ہتھیار استعمال نہ کرتے۔ یا مس مایاوتی کو اتنی عقل آجاتی کہ وہ دیکھ لیتیں کہ مقابلہ بھاجپا سے نہیں اس ملک کی حکومت سے ہے جو آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔
Published: 09 Aug 2017, 5:00 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 09 Aug 2017, 5:00 PM IST
تصویر @RahulGandhi