وزیر اعظم نریندر مودی نے ’گجرات ماڈل‘ کا ڈھنڈورا پورے ملک میں خوب پیٹا اور گجرات کو اس طرح پیش کیا جیسے وہ ہر شعبہ میں سرفہرست ہو۔ گجرات کی زمینی سچائی سے ناواقف دیگر ریاستوں کی عوام نے مودی کے لبھاؤنے وعدوں اور گجرات ماڈل کےسنہری خوابوں سے متاثر ہو کر انھیں ملک کی گدّی پر بٹھا دیا۔ لیکن اب جب کہ گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، تو ماحول بالکل بدلا بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ گجرات ماڈل کی قلعی کھل چکی ہے اور حالت یہ ہے کہ تین دہائی بعد اس ریاست میں ایک بار پھر ذات پات کی بنیاد پر سیاست شروع ہو گئی ہے۔ غالباً بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بھی اس بات کا احساس ہو گیا ہے کہ اس مرتبہ ترقی کے نام پر ووٹ اکٹھا نہیں کیا جا سکتا اور نوٹ بندی و جی ایس ٹی جیسے تباہ کن فیصلوں کی کاٹ کے لیے ذات پات کی سیاست کا استعمال بہتر ہے۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ ذات پات کی سیاست سے مودی کو زبردست نقصان ہی پہنچے گا، کیونکہ اب تک ان کی کامیابی کی وجہ’ہندو ہردے سمراٹ‘ والا چہرہ اور نام نہاد’وکاس کا ماڈل‘ رہا ہے۔
گجرات میں ذات پات کی سیاست کی گہما گہمی پر نظر ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ماحول گزشتہ دو سالوں میں بنا ہے۔ دراصل بی جے پی نے پسماندہ طبقات اور پاٹیداروں کو کبھی بہت زیادہ اہمیت نہیں دی اور نام نہاد ترقی و ہندوتوا کے زور پر اپنی سیاست چمکاتے رہے۔ لیکن گزشتہ دو سالوں میں کچھ ایسے واقعات ہوئے جس نے ریاست میں ذات پات کی سیاست کو فروغ دیا۔ پاٹیداروں کی ریزرویشن تحریک، اُونا حادثہ اور دلتوں و پسماندہ طبقات پر وقتاً فوقتاً حملوں سے نہ صرف بی جے پی حکومت کی شبیہ خراب ہوئی بلکہ نریندر مودی کے خلاف غصہ بھی بڑھا۔ اس کے ساتھ مودی کے ریاست میں دو وزیر اعلی بنائے جا چکے ہیں اور دونوں ہی عوام میں مقبول نہیں ہیں۔حالات کچھ ایسے بن گئے ہیں کہ مودی لاکھ ہندو-مسلم کارڈ کھیلنے کی کوشش کریں لیکن دلت، پسماندہ اور کسان طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ان کے خلاف ہی نظر آ رہے ہیں۔ غالباً انہی حالات کو دیکھتے ہوئے ہماچل پردیش اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کے اعلان کے ساتھ گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا تاکہ مودی پاٹیداروں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کا کچھ بھلا کر سکیں۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ جب الیکشن کمیشن نے گجرات اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا، اس سے پہلے اپنے گجرات دورہ میں نریندر مودی نے پاٹیداروں، دلتوں اور پسماندہ طبقات کو متاثر کرنے کے لیے کم و بیش 35 اعلانات کیے۔ مثلاً پاٹیدار تحریک میں شامل افراد سے متعلق 400 سے زائد کیس کی واپسی، نلکانٹھا کے کسانوں پر سے کیس واپسی، صفائی ملازمین کی انوکمپا تقرری، ایس ٹی ملازمین کو زیر التوا ایچ آر اے ادائیگی اور کسانوں کو تین لاکھ تک قرض بغیر شرح دینے کا فیصلہ وغیرہ۔ واضح ہو کہ زیادہ تر کسان او بی سی، قبائلی اور پاٹیدار طبقہ سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں... پارٹی کو مضبوط بنانے کے لیے بی جے پی کی نئی چال
ان کوششوں کے بعد بھی نہ تو پاٹیدار سماج بی جے پی سے خوش نظر آ رہا ہے اور نہ ہی دلت و او بی سی سماج۔ سال 2015 میں پاٹیداروں کی شروع ہوئی ریزرویشن تحریک نے تو آنندی بین پٹیل کو وزیر اعلیٰ کی کرسی چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور اس وقت وجے روپانی کی ناک میں دَم کیے ہوئے ہیں۔ کچھ اسی طرح کا معاملہ دلت طبقہ کے ساتھ بھی ہے۔ جولائی 2016 میں اونا حادثہ کا وہ زخم تو شاید دلتوں کے ذہن میں اب بھی تازہ ہے جب گئو رکشکوں نے مردہ جانور کی چمڑی اتارنے والے دلت نوجوانوں کی پٹائی کی۔ اس واقعہ کے بعد دلت طبقہ کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں آپس میں متحد ہو گئیں اور ان میں سے جگنیش میوانی جیسا فائر برانڈ دلت نوجوان لیڈر اُبھرا جو آج اس طبقہ کی رہنمائی کر رہا ہے۔ دلت طبقہ جگنیش کے ساتھ ہے اور جگنیش کانگریس کے ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ الپیش ٹھاکور بھی بی جے پی کے لیے خطرۂ جان ثابت ہو رہے ہیں جو او بی سی کے قدآور لیڈر کی شکل اختیار کر چکے ہیں اور 4.33 کروڑ ووٹر اس طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ الپیش تو باضابطہ کانگریس میں شامل بھی ہو چکے ہیں۔
قابل دید بات یہ ہے کہ نریندر مودی کو نہ چاہتے ہوئے بھی ذات پات کی سیاست کرنی پڑ رہی ہے اور کئی بار انھوں نے سردار پٹیل و مہاتما گاندھی کا نام لے کر لوگوں کی ناراضگی ختم کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ آج (29 اکتوبر) بھی وزیر اعظم نے ’من کی بات‘ پروگرام کے دوران سردار پٹیل کا تذکرہ کیا اور 31 اکتوبر کو اُن کی یوم پیدائش منانے کے منصوبہ سے متعلق بتایا۔ لیکن اس کا کوئی اثر پڑتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’ہندوتوا‘ ایجنڈا کو بھی انھوں نے مضبوطی سے پکڑے رکھا ہے اور یوگی آدتیہ ناتھ کو انتخابی تشہیر کا بڑا چہرہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ دوسری طرف سیکولر ووٹوں کو بانٹنے کے لیے عام آدمی پارٹی، شنکر سنگھ واگھیلا کی ’جن وِکلپ پارٹی‘ اور اَب جنتا دل یونائٹیڈ جیسی پارٹیاں سیاسی میدان میں اُتر گئی ہیں جن کا ارادہ بی جے پی کو مضبوط کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔
دوسری طرف کانگریس نے بھی بی جے پی کے دور اقتدار میں گجرات کی ہوئی بدحالی کو زور و شور سے عوام کے سامنے رکھا ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے دوروں میں نہ صرف نریندر مودی اور ان کے بعد کے وزرائے اعلیٰ کی ناکامیوں کو منظر عام پر لائے بلکہ پاٹیدار، دلت اور او بی سی طبقہ کو ساتھ لے کر چلنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔ چونکہ کانگریس یہ سمجھ گئی ہے کہ بی جے پی سے ناراض ان طبقات کا ساتھ اگر ’ہاتھ‘ کو مل گیا تو دو دہائی سے گجرات پر قابض بی جے پی کا پتّہ کٹ سکتا ہے، اس لیے پارٹی بھی ان طبقا ت کو اپنے ساتھ جوڑنے میں کوئی جھجک نہیں دکھا رہی ہے۔ ایک ذرائع کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ 182 اسمبلی سیٹوں والی اس ریاست میں کانگریس نے تقریباً 45 سیٹ پاٹیداروں کو اور 45 سیٹ او بی سی طبقہ سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
بہر حال، اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ 1985 میں کانگریس لیڈر مادھو سنگھ سولنکی نے جس طرح شتریہ، دلت، قبائلی اور مسلم ووٹروں کو ایک ساتھ جوڑ کر 149 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی، کیا ویسا ہی کچھ نظارہ اس بار دیکھنے کو ملے گا۔ ایک بات تو یقینی ہے کہ اگر ذات پات کی بنیاد پر ووٹ پڑے تو اس کا نقصان بی جے پی کوہی ہوگا، کیونکہ بی جے پی و نریندر مودی نے غریبوں اور پسماندہ طبقات کو اکثر نظر انداز ہی کیا ہے، فائدہ پہنچانے کا کام تو بڑے بڑے کاروباریوں اور تاجروں کے لیے کیا گیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined