ہمارے یہاں پیاس لگنے پر ہی کنواں کھودنے کی پرانی روایت ہے۔ لہٰذا ہندوستان کے گورنروں کو کتنے اختیارات ہیں، اس کی تشریح تبھی کی جاتی ہے جب وہ کچھ کرنے کی ٹھان لیں۔ جھگڑا ’الف‘ اور ’ب‘ سے شروع ہوتا ہے۔ گورنر کی تقرری کس طرح ہوئی ہے؟ کیا اس میں وزیر اعلیٰ کا مشورہ شامل تھا؟ آئین میں تو لکھا ہے کہ صدر جمہوریہ کی ’خواہش‘ کے بعد ہی عزت مآب گدی پر رہ سکتے ہیں۔ اس خواہش کے دائرے میں کیا وزیر اعلیٰ بھی شامل ہیں۔
تقریباً نصف صدی قبل (مارچ 1967 میں) عزت مآب سمپورنانند کے سامنے بھی کم و بیش یہی سوال اٹھا، اکثریتی فریق کا لیڈر کس کو مانیں، وزیر اعلیٰ بننے کی دعوت کسے دیں؟ یہاں پتہ چلا کہ ہر گورنر کی ایک بنیادی کشمکش یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف تو ریاستی حکومت کو قابو میں رکھنے کے لیے مرکز کا ایجنٹ ہوتا ہے، لیکن دوسری طرف زمینی طور پر اس کا کام بہت سے بہت صدر جمہوریہ کی طرح فیتہ کاٹنے اور منتخب حکومت کی پالیسیوں کا عکس بنے رہنے تک ہی محدود ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ایک اضافی کردار بھی کھول کر رکھا گیا کہ آئین کی دفعہ 163 گورنر کو مشکل وقت میں (جیسا کہ اس وقت ہے) اپنے ’شعور‘ سے معاملہ حل کرنے کی طاقت دیتاہے۔ اس وقت بھی ماہرین کو یاد ہوگا کہ یہ سوال بہت معیاری انداز میں حل نہیں ہوا تھا۔ بعد میں بنگال میں بھی اس وقت زبردست ہنگامہ ہوا تھا جب اس وقت کے گورنر دھرم ویر نے فلور پر باسو بابو کی حکومت کا ٹیسٹ کرانے کے لیے اسمبلی سیشن طلب کرنے کی تجویز رکھی۔ باسو جیتے اور معاملہ ٹھنڈا ہو گیا۔ لیکن اُدھر بہار میں بی پی منڈل اور ان کے ساتھیوں نے گورنر سے کہا کہ وہ جلد اسمبلی بلوائیں تاکہ مہامایا بابو کی کابینہ کو اکھاڑا جا سکے۔ کل ملا کر اس طرح کی اکھاڑ-پچھاڑ، پیسہ اور بازو کی طاقت کا حقہ ریاستوں میں ہمیشہ تازہ رہا ہے اور ہندوستانی سیاست کا مزاج دیکھتے ہوئے رہے گا بھی۔ جب تک اس بابت (بومّئی معاملے کی طرح) تازہ رول ماڈل اصول نہ بنائے جائیں جو ریاستوں میں صدر راج لگانے کے حق کو دلیل کے دائرے میں باندھتے ہیں۔
Published: undefined
میڈیا میں ہزار خامیاں ہیں لیکن آج جب کابینہ میں کوئی منھ نہیں کھولتا، برسراقتدار پارٹی کی میٹنگوں میں کھلی بحث نہیں ہوتی، پارلیمنٹ کی کارروائی بار بار ٹھپ ہوتی رہتی ہے، اور نجی و تعلیمی اداروں کے طاقتور مالک برسراقتدار اور اپوزیشن کے لیڈر بسلیری کا پانی پیتے ہوئے ماحولیاتی بحران اور تعلیم و صحت کے زوال پر فکر ظاہر کرتے ہیں، تب میڈیا ہی ایک ایسا اسٹیج ہے جہاں دلیل کی ٹھنڈی روشنی اور گرما گرم گھوٹالوں کے اسٹنگ ایک ساتھ ہر عوام کو مل سکتے ہیں۔ ایک حد تک عدلیہ بھی یہ کام کر سکتی تھی، لیکن فی الحال وہ خود اپنی داخلی مخالفتوں سے اس قدر گھری ہوئی ہے کہ وہاں کی ہر چیز کو اسی کے لوگ مشتبہ کہہ رہے ہیں۔ اس لیے میڈیا ضروری ہے۔پوری عوام کا دل اگر حکمراں طبقہ کے ساتھ ہو تو بغیر میڈیا کے بھی وہ اپنا کام کر سکتا ہے، لیکن اگر عوام تکلیف میں ہے تو میڈیا کے کسی نہ کسی اسٹیج سے عوامی غصہ سامنے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔
فی الحال کرناٹک انتخابات کا اصل مینڈیٹ طے کرانے کا معاملہ عدالت میں ہے، لیکن عزت مآب گورنر کے خرم سے کل 104 ممبران اسمبلی والے یدیورپّا جی کا ’راج تلک‘ ہوچکا ہے اور وہ وعدہ کر رہے ہیں کہ دی گئی میعاد کے اندر وہ اپنے ممبران اسمبلی کی تعداد ضروری نمبر تک پہنچا دیں گے۔ کس طرح؟ یہ سوال کوئی اب نہیں پوچھتا۔ 117 ممبران اسمبلی کے دستخط والا دعویٰ عزت مآب گورنر کو دے چکے گٹھ جوڑ کو اگر اس تنازعہ کے درمیان تمام جمہوری ادارے کمزور محسوس کر رہے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ فی الوقت نظام کے اُن کل پرزوں کو ڈھیلے پن میں ہی اپنی سیکورٹی نظر آتی ہے۔ کلہاڑی کی بینٹ اور لوہے کے اگلے حصہ کے درمیان اگر دوستی قائم ہو چکی ہو تو اس کلہاڑی کو اپنے یا کسی کے بھی پیر پر مارنے کی بے وقوفی کون کرے گا؟
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined