ایک دور تھا جب ہندوستان کے میڈیا کو پوری دنیا میں وقار اور اعتبار حاصل تھا۔ اخباروں میں کسی خبر کی اشاعت یا نیوز چینلوں پر کسی خبر کے نشریے پر پوری دنیا اعتبار کرتی تھی۔ لیکن گزشتہ چھ ساڑھے چھ برسوں میں ہندوستانی میڈیا اور بالخصوص الیکٹرانک میڈیا حکومت کے سامنے سجدہ ریز ہو گیا ہے اور اس نے حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کو ہی صحافت سمجھ لیا ہے۔ اس صورت حال نے میڈیا کو زوال کے ایسے گہرے گڈھے میں پہنچا دیا ہے جہاں سے بآسانی نکل پانا اس کے لیے اب آسان نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ میڈیا حکومت کا غلام بن گیا ہے تو بیجا نہ ہوگا۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
اس صورت حال نے ملک کے ہر سنجیدہ شخص کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ سنسنی خیزی نے تہذیب و شائستگی کے دامن کو تار تار کر دیا ہے اور اب میڈیا کسی کی بھی دستار اچھالنے میں کوئی گریز نہیں کرتا۔ اسے اس کی قطعاً پروا نہیں کہ اس کے اس رویے سے خاندان کے خاندان بدنام ہو جاتے ہیں اور لوگوں کی پیشانی پر ایسا داغ لگ جاتا ہے جو جلد مندمل نہیں ہوتا۔ اس صورت حال نے ملک کی عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ کو بھی پریشان کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے الیکٹرانک میڈیا کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دینے کی بات کہی ہے۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
اس وقت سپریم کورٹ میں سدرشن نامی ایک نیوز چینل کے ایک انتہائی خرافاتی پروگرام ”یو پی ایس سی جہاد“ کے خلاف سماعت چل رہی ہے۔ ممکن ہے کہ قارئین جب اس مضمون کو پڑھیں تو اس وقت تک سماعت کا یہ سلسلہ مکمل ہو چکا ہو۔ لیکن سماعت کے دوران جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس ایم کے جوزف اور جسٹس اندو ملہوترہ کی بنچ نے میڈیا کے بارے میں جو تبصرے کیے ہیں اور سیلف ریگولیشن باڈیز کے بارے میں جو رائے ظاہر کی ہے وہ عدالت عظمیٰ کی تشویش کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ میڈیا کو اس کی آزادی نہیں دی جا سکتی کہ وہ تفتیشی صحافت کے نام پر کسی ایک فرقے کو بدنام کرے۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
بنچ نے پریس کونسل، وزارت اطلاعات و نشریات اور نیشنل براڈ کاسٹنگ ایسو سی ایشن (این بی اے) کو بری طرح لتاڑا۔ اس نے کہا کہ این بی اے کا واضح طور پر کہنا ہے کہ سدرشن ٹی وی اس کا ممبر نہیں ہے اس لیے وہ اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا۔ عدالت نے کہا کہ این بی اے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس سابق جج کے زیر سربراہی ایک کمیٹی ہے اور وہ کسی بھی چینل پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ کر سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ این بی اے کے پاس اختیارات نہیں ہیں۔ وہ صرف اپنے ممبران کے لیے ہی ہے۔ سدرشن چینل اس کا ممبر نہیں ہے۔ آپ کیسے خود کو نظم و ضبط کا پابند بنا سکتے ہیں جب تمام چینل آپ کے ممبر ہی نہیں ہیں۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
عدالت نے نیوز چینلوں پر ہونے والی بحثوں پر بھی شدید تنقید کی اور کہا کہ اکثر اوقات صرف اینکر ہی بولتا رہتا ہے۔ دوسرے لوگوں کو بولنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ ان کی آواز بند کر دی جاتی ہے۔ عدالت نے این بی اے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ ٹی وی دیکھتے ہیں۔ اس نے کہا جی مائی لارڈ۔ اس پر بنچ نے کہا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اس کو کنٹرول کرنے کے اہل ہیں۔ عدالت نے وزارت اطلاعات و نشریات اور دوسروں کو بھی نوٹس جاری کیا۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
نوٹس کے جواب میں مرکزی حکومت نے کہا کہ الیکٹرانک میڈیا کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے پاس اس سلسلے میں ضوابط ہیں اور وہ خود کو نظم و ضبط کا پابند بناتا ہے۔ ڈیجٹل میڈیا (یا سوشل میڈیا) کو نظم و ضبط کا پابند بنانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ واٹس ایپ، ٹوئٹر اور فیس بک جیسے پلیٹ فارموں سے اطلاعات تیزی سے دوسروں تک پہنچ جاتی ہیں اور وائرل ہو جاتی ہیں۔ حکومت نے اپنے حلف نامے میں الیکٹرانک میڈیا کے سلسلے میں عدالت کے تبصرے کے برعکس اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ وہ نہیں چاہتی کہ الیکٹرانک میڈیا کے سلسلے میں کوئی ضابطہ بنایا جائے۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
اس کی وجہ بہت صاف ہے۔ چند کو چھوڑ کر بیشتر چینل حکومت کی خوشامد میں لگے رہتے ہیں اور اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔ یہ چینل حکومت سے کوئی سوال پوچھنے کے بجائے اپوزیشن سے ہی سوالات کرتے ہیں اور ملکی مسائل کے سلسلے میں اسے ویلن بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حکومت کی پالیسیوں کی حمایت کرتے وقت انھیں نہ سچائی دیکھائی دیتی ہے اور نہ ہی وہ حقائق سے آنکھیں چار کرنا چاہتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں جس طرح سنسنی خیزی کو بڑھاوا دیا گیا اور دیا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ سوشانت سنگھ کی خود کشی کے واقعہ کو جس طرح تین ماہ سے اچھالا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں حکومت یہ کیوں چاہے گی کہ الیکٹرانک میڈیا کی ناک میں نکیل ڈالی جائے۔ وہ تو یہی چاہتی ہے کہ وہ شتر بے مہار کی مانند دندناتا پھرے اور اپوزیشن کو نشانہ بناتا رہے۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
جبکہ سوشل میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو حکومت کی خوشامد نہیں کرتا۔ جو اس کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھاتا۔ جو اس سے اشتہارات کے حصول کی لالچ میں صحیح کو غلط اور غلط کو صحیح نہیں کہتا۔ ہاں فیس بک کی جانبداری گزشتہ دنوں ضرور اجاگر ہوئی اور اس کی جانب سے بی جے پی کے رہنماؤں کے نفرت انگیز بیانات کے تئیں نرمی سامنے آئی۔ لیکن باقی دوسرے پلیٹ فارموں پر جس طرح حکومت کی غلط پالیسیوں اور فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اس سے حکومت پریشان رہتی ہے۔ حالیہ دنوں میں ڈجٹل میڈیا کے دباؤ کی وجہ سے حکومت کو اپنے کئی فیصلوں میں ترمیم کرنی پڑی ہے۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ الیکٹرانک میڈیا جو جھوٹ پھیلاتا ہے سوشل میڈیا اس کو بے نقاب کرنے کا اپنا فریضہ انجام دیتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ حکومت کو اس سے پریشانی ہے اور اسی لیے وہ الیکٹرانک میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا کو ضابطہ بند کرنا چاہتی ہے۔ اس لیے اگر آگے چل کر حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو غلام بنانے کی کوئی کوشش ہوتی ہے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن اگر حکومت ایسا کوئی قدم اٹھاتی ہے تو عوام کو اس کی شدید مخالفت کرنی ہوگی۔ کیونکہ یہ قدم سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ عوامی جذبات و خیالات پر بند باندھنے کے مترادف ہوگا۔ یاد رکھیں کہ اگر سوشل میڈیا بھی حکومت کا غلام بن گیا تو پھر اس کی غلط پالیسیوں، اس کے غلط فیصلوں اور میڈیا کے غلط پروپیگنڈوں کا جواب دینے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہیں بچے گا۔ کوئی آواز اٹھانے والا نہیں رہے گا۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Sep 2020, 10:10 PM IST
تصویر: پریس ریلیز