اللہ رے ہندوستانی مسلمان کی بدنصیبی! شاید وہ ابھی ایک ہزار برس بھی طلاق ثلاثہ اور بابری مسجد کے جنجال سے باہر نہیں نکل پائے گا۔ اور اس بحث سے باہر نکلے بھی تو نکلے کیسے! اس کے حریف کا مشن تو ہے ہی یہی کہ مسلم اقلیت بے معنی بحثوں کا شکار رہے تاکہ اس کو اپنی ترقی کے بارے میں کبھی سوچنے اور عمل پیرا ہونے کا موقع ہی نہیں مل سکے۔ اس سے بھی بڑی آفت یہ ہے کہ اگر اس کے حریف اس کو تھوڑا بہت موقع دے بھی دیں تو اس کے قائد اس کو ایک ایسی راہ سجھا دیتے ہیں کہ جو اس کو پسماندگی کےا ندھیروں میں غرق کر دیتی ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ کے حیدر آباد اجلاس کا میڈیا اور ملت دونوں میں بڑا چرچہ تھا۔ اجلاس شروع ہونے سے قبل بڑا شور تھا کہ آخر پرسنل لاء بورڈ نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اپنے ماڈل نکاح نامہ میں ایسی شق ڈالے گا جس کی رو سے کسی بھی شوہر کو اپنے ہونے والی زوجہ سے طلاق سے پہلے اجازت لینی ہوگی۔ اس طرح ظاہر ہے کہ تین طلاق کا مسئلہ حل ہو جاتا اور ہندوستانی مسلم اقلیت سنہ 1980 کی دہائی سے جس طلاق ثلاثہ کا بوجھ اٹھائے جی رہی ہے اس بوجھ سے اس کو نجات مل جائے گی۔
لیکن کھودا پہاڑ اور نکلی چوہیا! جی ہاں، بورڈ کا اجلاس ختم ہوا اور اس میں کسی ماڈل نکاح نامہ کا کوئی پرزہ بھی نہیں نکل کر آیا۔ اگر بورڈ کے اس اجلاس سے کچھ نکلا تو صرف بابری مسجد نکلی۔ وہ بھی اس سلسلے میں وہی پرانی بات باہر آئی جو سنہ 1980 کی دہائی سے مسلم قائدین بابری مسجد کے بارے میں کہتے چلے آ رہے ہیں۔ یعنی، اول مسجد، آخر مسجد فارمولہ ہی بورڈ کو منظور ہے۔ اس کے علاوہ نہ تو کوئی بات ہوگی اور نہ ہی کچھ منظور ہوگا۔ اور یہ ہوگا کیسے یہ بات میڈیا میں پچھلے چند دنوں سے زیر بحث ہے۔
اس بحث کو چھیڑنے والے مولانا سلمان ندوی صاحب ہیں جن کا ذکر نہ میں نے کبھی سنا تھا اور نہ شاید آپ نے پہلے کبھی سنا ہوگا۔ غالباً ان کو کہیں سے الہام ہوا اور وہ شری شری روی شنکر سے ایودھیا معاملے کو سلجھانے کے سلسلے میں ملاقات کے لیے مل بیٹھے۔ اب ذرا ان سے کوئی پوچھے کہ وہ پندرہ کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کے راتوں رات ’اسپوک پرسن‘ کیسے بن بیٹھے۔ انھوں نے ابھی تک ہندوستانی مسلمانوں کی کیا خدمات کی ہے کہ وہ بابری مسجد جیسے الجھے ہوئے مسئلہ پر پوری مسلم اقلیت کی نمائندگی کریں۔ لیکن یہ بھی ہندوستانی مسلم اقلیت کی بدنصیبی ہے کہ کسی بھی مدرسہ کا مدرس جب چاہے قوم کا ٹھیکیدار بن جائے۔ مولانا سلمان صاحب تو ندوۃالعلما جیسے مدرسہ کے مدرس ہیں پھر تو وہ پوری قوم کے خلیفہ ہو ہی سکتے ہیں۔
خیر، کل تک انجان مولوی صاحب نے شری شری روی شنکر صاحب سے ملاقات کے بعد پوری ملت اسلامیہ ہند کی جانب سے یہ فارمولہ پیش کر دیا کہ مسلمان بابری مسجد اپنے مقام کے بجائے کسی دوسری جگہ بنا لیں۔ جمہوری نظام میں ہر فرد کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ انھوں نے اگر یہ مشورہ دیا تو چلیے، بات شاید آئی گئی ہو جاتی۔ لیکن مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا سلمان ندوی کی رائے پر چراغ پا ہو اٹھا اور حیدر آباد کا پورا اجلاس مولانا کی نذر ہو گیا۔ طلاق ثلاثہ کے حل کے بجائے بورڈ نے پہلے تو مولانا سلمان ندوی کو بورڈ سے نکال باہر کیا، پھر سنہ 1980 سے مسلمان بابری مسجد کے بارے میں جو بات کہتا تھا وہ بات دہرا دی۔ وہ یہ تھی کہ بابری مسجد جہاں تھی وہیں رہے گی کیونکہ جس زمین پر ایک بار مسجد بن گئی اس جگہ پر ابد تک مسجد ہی قائم ہو سکتی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ بورڈ اس موقف پر اڑ گیا کہ بابری مسجد مسجد تھی اور ہم اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کریں گے۔
ادھر بورڈ کا بیان آیا اور ادھر اس بیان پر سنگھ اور بی جے پی نے خوشی سے بغلیں بجانی شروع کر دیں۔ پرسنل لاء بورڈ کے اس موقف پر سنگھ نہ خوش ہوتا تو اور کون خوش ہوتا۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ رام مندر ہندوؤں کے لیے جذباتی معاملہ ہو سکتا ہے لیکن سنگھ اور بی جے پی کے لیے یہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ سنگھ اور بی جے پی رام مندر کے سہارے اگلا لوک سبھا انتخاب جیتنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس منصوبہ کی کامیابی اسی بات پر منحصر ہے کہ ہندو بھگوان رام کے نام پر بطور ہندو ووٹ بینک متحد ہو کر بی جے پی کو ووٹ دے دے تو نریندر مودی ایک بار پھر ملک کے وزیر اعظم بن جائیں گے۔ لیکن ہندوتوا عام طور پر ذاتوں میں بٹا رہتا ہے۔ الیکشن میں بھی وہ عموماً ذات کی بنیاد پر ہی ووٹ کرتا ہے۔ ہندو، ہندو تب ہی بنتا ہے جب اس کو سامنے مسلم حریف نظر آتا ہے۔
اب آپ سمجھے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بابری مسجد موقف پر سب سے زیادہ خوشی سنگھ، بی جے پی اور مودی کو کیوں ہوگی۔ بابری مسجد نہیں ہٹائیں گے جب کہا جائے گا تو ہندو تو یہی سمجھے گا کہ مسلمان رام مندر نہیں بننے دے گا۔ اب آپ بتائیے بطور ہندو ایک ہندو کو اس بات پر غصہ آئے گا کہ نہیں! سنگھ کو رام مندر معاملے میں ایک ایسی مسلم تنظیم کی سخت ضرورت ہے جو ہندوؤں کو غصہ دلائے۔ اور یہی کھیل سنہ 1980 اور 1990 کی دہائی میں اس وقت ہوا تھا جب سنہ 1992 میں بابری مسجد گرائی گئی تھی۔
میں ان صحافیوں میں سے ایک ہوں جس نے سنہ 1986 میں بابری مسجد کا تالا کھلنے کے وقت سے لے کر مسجد گرنے تک اور پھر ابھی تک اس مسئلہ کو رپورٹ کیا اور مستقل لکھا ہے۔ جیسے اب مسلم پرسنل لاء بورڈ بابری مسجد کی وکالت کر رہا ہے ویسے ہی مسجد کا تالا کھلنے کے بعد یکایک نہ جانے کہاں سے بابری مسجد ایکشن کمیٹی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ کمیٹی کی جانب سے اعظم خان اور مولانا عبیداللہ اعظمی جیسے شعلہ بیان مقرر مسجد کے تحفظ کے لیے ہزاروں جذباتی مسلمانوں کے درمیان بابری مسجد کے تحفظ کے لیے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے۔ ان کی تقریروں سے متاثر ہزاروں کا مسلم مجمع نعرۂ تکبیر کی صداؤں میں خود بھی جام شہادت نوش کرنے کو تیار رہتا۔ اور یہ ریلیاں ہندو ریلیوں سے پہلے شروع ہو گئیں۔
جب بابری مسجد ایکشن کمیٹی خوب ریلیاں کر چکی اور ہندوؤں کو بھگوان رام خطرے میں لگنے لگے تو پھر وشو ہندو پریشد نے اپنی ریلیاں شروع کیں۔ اشوک سنگھل کے بیان اور پھر اوما بھارتی اور سادھوی ریتمبھرا کی مسلمانوں کے خلاف اعظم خان اور عبیداللہ اعظمی سے زیادہ زہریلی تقریریں شروع ہوئیں۔ بس پھر کیا تھا، ہندو غصہ شباب پر پہنچنے لگا اور اب بس ایک نعرہ تھا اور وہ تھا ’مندر وہیں بنائیں گے‘۔ یعنی اب ہندو ضد پر اڑ چکا تھا۔ یہ ضد قطعاً نہ ہوتی اگر بابری مسجد ایکشن کمیٹی وہ سب شروع میں نہ کرتی جو اس نے سنہ 1986 اور 1992 کے درمیان کیا تھا۔ اس بچکانہ سیاست کا نتیجہ کیا ہوا! بابری مسجد مسمار ہوئی، ہزاروں مسلمان مارے گئے اور اس دن سے اس ملک میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو جو عروج ہوا اس نے آخر اس کو نریندر مودی تک پہنچا دیا۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بابری مسجد پر تازہ موقف نے رام مندر معاملے کو اسی موڑ پر لا کھڑا کیا ہے جہاں وہ مسجد گرنے سے پہلے تھا۔ ہوگا یہ کہ پہلے اسدالدین اویسی جیسے لیڈروں کو ٹی وی اور میڈیا پر رام مندر کے خلاف شعلہ بیانی کرنے کا خوب موقع دیا جائے گا۔ ساتھ ہی مولانا سلمان ندوی کو بھی بیان بازی کی جگہ دی جائے گی تاکہ ہندوؤں کو یہ پیغام جائے کہ مسلمانوں کو سلمان ندوی جیسے امن پسند منظور نہیں۔ ان کو ’دہشت گرد‘ ہی اچھے لگتے ہیں۔ ظاہر ہے ہندوؤں کو غصہ آنا شروع ہوگا۔ بس پھر سنگھ اور بی جے پی کی متحد اور منظم طاقت میڈیا کے ساتھ مل کر اس ملک میں رام مندر تعمیر کے لیے وہ فضا بنائیں گے کہ ہر ہندو اپنی ذات بھول کر ہندو ہو جائے گا۔ بس پھر وہ بھگوان رام کے سیوک نریندر مودی کو ایسی اکثریت دے گا کہ وہ اگلی بار آئین میں خاطر خواہ تبدیلی کر ملک کو باقاعدہ ایک ہندو راشٹر بنا لے۔ اس وقت بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے افراد کی طرح نہ تو اویسی جیسے شعلہ بیان بورڈ کے مقرر نظر آئیں گے اور نہ ہی بورڈ کہیں نظر آئے گا۔ بابری مسجد کی جگہ مندر بھی بنے گا، مسلمان مارا بھی جائے گا اور ہندوستان باقاعدہ ہندو راشٹر بھی بنے گا۔
ہم بس یہی دعا کر سکتے ہیں کہ اللہ بچائے ہندوستانی مسلم اقلیت کو ایسی قیادت سے جو ہمیشہ اس کو جہنم میں جھونکنے کو تیار رہتی ہے۔
Published: 18 Feb 2018, 8:28 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 18 Feb 2018, 8:28 AM IST