اس الیکشن نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو فراٹے سے جھوٹ بولنے کا ملکہ حاصل ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انھیں اپنی اس ”خوبی“ پر بڑا ناز ہے۔ وہ جب کوئی جھوٹ بولتے ہیں اور پھر پکڑے جاتے ہیں تو انھیں شرمندگی کے بجائے فخر ہوتا ہے کہ ان کے بیان پر لوگ بحث کر رہے ہیں اور ان کی باتیں میڈیا میں چھائی ہوئی ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی یہ ”خوبی“ وزیر اعظم کے منصب کے وقار کو ملیا میٹ کر رہی ہے۔ انھیں اس منصب کے وقار کی کبھی کوئی پروا رہی ہی نہیں۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
ان انتخابات نے یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ دروغ گوئی کے ساتھ ساتھ سطحی بیان بازی میں بھی ان کا کوئی ثانی نہیں۔ اگر اس فن کی کوئی عالمی چمپئن شپ ہو تو ٹرافی ہندوستان ہی کے قبضے میں آئے گی۔ کوئی کتنا ہی بڑا لسان اور چرب زبان کیوں نہ ہو اور اس نے کتنے ہی ڈبیٹ اور تقریری مقابلوں میں حریفوں کے چھکے چھڑائے ہوں لیکن وہ عامیانہ زبان استعمال کرنے اور وقار و شائستگی سے بلا جھجک نیچے اتر آنے میں مودی کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اگر جھوٹ بولنے کا کوئی عالمی مقابلہ ہو تو اس میں بھی چمپئین مودی ہی ثابت ہوں گے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
یوں تو انتخابی مہم کے آغاز کے بعد سے ہی ان کی زبان بتدریج تہذیب و شائستگی کا دامن چھوڑتی اور ایک ایک پائیدان نیچے اترتی جا رہی تھی لیکن حد تو اس وقت ہو گئی جب انھوں نے کانگریس دشمنی میں آنجہانی وزیر اعظم راجیو گاندھی تک کو گھسیٹ لیا اور کہہ دیا کہ ان کی زندگی کا خاتمہ ”بھرشٹاری نمبر ون“ کی حیثیت سے ہوا۔ ان کا اشارہ بوفورس توپ سودے کی جانب تھا۔ حالانکہ یہ دنیا جانتی ہے کہ راجیو گاندھی کی زندگی کا خاتمہ کس دردناک انداز میں ہوا تھا۔ ان کی اس موت کو دنیا نے شہادت کے طور پر دیکھا اور سمجھا۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
جہاں تک بوفورس توپ سودے میں دلالی کے الزام کی بات ہے تو سی بی آئی سولہ برسوں تک خاک چھانتی رہی مگر اسے دلالی کا ایک معمولی سا بھی ثبوت نہیں ملا۔ بالآخر دہلی ہائی کورٹ نے ان کو اس الزام سے بری کر دیا اور اپنے فیصلے میں کہا کہ بوفورس توپ سودے میں رشوت ستانی کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔ ابھی پچھلے سال بی جے پی کے ایک لیڈر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرکے اس نام نہاد اسکینڈل کے بھوت کو پھر زندہ کرنے کی کوشش کی لیکن عدالت عظمیٰ نے اس اپیل کو خارج کر دیا۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
لیکن اس کے باوجود بی جے پی لیڈران اور خاص طور پر نریند رمودی بوفورس توپ سودے میں مبینہ رشوت ستانی کا الزام لگا کر کانگریس کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں۔ مہذب سماج کا یہ ایک عام اصول ہے کہ اگر کوئی شخص دنیا سے چلا جائے تو اس کی اچھائیوں کو بیان کیا جاتا ہے برائیوں کو نہیں۔ اس پر کوئی الزام تراشی بھی نہیں کی جاتی۔ کیونکہ بحث کا یہ قاعدہ ہے کہ جو شخص اپنے اوپر عاید کیے جانے والے الزامات کا جواب دینے کے لیے موجود نہیں ہے اس پر کوئی الزام نہ لگایا جائے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
اس متفقہ اصول پر پوری دنیا عمل پیرا ہے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ بوکھلاہٹ اور الیکشن جیت لینے کی ہوس نے وزیر اعظم مودی کو ان تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ویسے بھی وہ کسی اصول و ضابطے کو کہاں مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک قانون کا بھی کوئی احترام نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے زندوں کو نشانہ بناتے بناتے مُردوں تک کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ کسی بھی بہانے سے عوام کو کانگریس سے برگشتہ کیا جائے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
اسی درمیان انھوں نے ایک اور جھوٹ بولا۔ انھوں نے الزام عاید کیا کہ راجیو گاندھی نے آئی این ایس وراٹ کو ذاتی ٹیکسی کے طور پر استعمال کیا۔ لیکن مودی جس دورے کا حوالہ دیتے ہیں اس کے بارے میں حقائق سامنے موجود ہیں۔ بحریہ کے سابق سینئر افسران نے مودی کے جھوٹ کو بے نقاب کیا اور بتایا کہ وہ ذاتی نہیں بلکہ سرکاری دورے پر گئے تھے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
وزیر اعظم مودی بار بار کہتے ہیں کہ 70برسوں میں کانگریس نے ملک کو لوٹا اور ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوا۔ لیکن اور سب چھوڑ دیجیے صرف راجیو گاندھی کے دور حکومت کو ہی لیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس دور میں بھی بڑی ترقی ہوئی تھی۔ جب راجیو گاندھی نے مغربی ملکوں کو دیکھ کر ہندوستان میں بھی کمپیوٹر لانے کی بات کی تھی تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔ لیکن وہ اپنے موقف پر قائم رہے اور ان کے ساتھیوں نے جن میں سیم پترودہ قابل ذکر ہیں، جن کے ایک بیان پر بی جے پی والوں نے ہائے توبہ مچائی ہوئی ہے، ان کی خواہش کے مطابق ملک میں کمپیوٹر کا پروگرام شروع کیا۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
اس طرح ملک میں کمپیوٹر انقلاب آگیا۔ آج پورا ملک کمپیوٹر پر منحصر ہے اور بہت سے ترقیاتی پروجکٹ کمپیوٹر سے منسلک ہیں۔ آج بیشتر گھروں میں کمپیوٹر موجود ہے، لیپ ٹاپ موجود ہے۔ آج کوئی بھی شعبہ حیات ایسا نہیں ہے جو کمپیوٹر کا محتاج نہ ہو۔ اسے راجیو گاندھی کی دین کہا جا سکتا ہے۔ اس انقلاب سے آج خود مودی جی کتنا فائدہ اٹھا رہے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
راجیو گاندھی نے ووٹ دینے کی عمر کو 22 سال سے گھٹا کر 18 سال کر دیا تھا جس کی وجہ سے کروڑوں نوجوان ووٹر بن گئے تھے اور آج بھی 18 سال کی عمر کے جو لوگ ووٹ ڈال رہے ہیں وہ راجیو گاندھی کی دین ہے۔ راجیو گاندھی نے پنچایتی راج سسٹم کو مربوط کیا۔ اس کے علاوہ نودیہ اسکولوں کا ملک بھر میں جال بچھا دیا۔ اور بھی متعدد ترقیاتی کام ہیں جو صرف راجیو گاندھی کے دور میں ہوئے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
جہاں تک کرپشن اور مالی بدعنوانی کا تعلق ہے تو بوفورس سودے کے علاوہ کوئی اور داغ ان کے دامن پر نہیں ہے۔ بوفورس میں بھی عدالت ان کو کلین چٹ دے چکی ہے۔ اس کے باوجود اس کے بھوت کو مار مار کر زندہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ پر لیکن انسانیت بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
اس الیکشن نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ مودی کے مقابلے میں کانگریس صدر راہل گاندھی انتہائی شرافت و شائستگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یہ ان کی خاندانی شرافت ہے کہ وہ مودی کے جھوٹ اور ان کی ہفوات کو بھی بڑے تحمل کے ساتھ برداشت کر رہے ہیں۔ انھوں نے اس پوری مہم میں کوئی ہلکی بات نہیں کہی۔ دونوں رہنماؤں کے بیانات یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ خاندانی شرافت ہر شخص میں نہیں پائی جاتی اور کم از کم گھر سے بھاگ جانے والے میں تو بالکل ہی نہیں پائی جاتی۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 May 2019, 8:10 PM IST