نفرت و جنون کا آتش فشاں جب پھٹتا ہے تو دوسرے بھی اس کے شکار ہوتے ہیں اور اپنے بھی۔ اس آتش فشاں کو ہوا دینے والے بھی اس کی زد میں آتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ ساتھ وہ بھی تباہی و بربادی سے دوچار ہوتے ہیں۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے نام پر بھڑکائے جانے والے نفرت و جنون کے جوالہ مکھی کے شعلوں کی آنچ جب بی جے پی سمیت پورے سنگھ پریوار پر آنے لگی تو اس جوالہ مکھی کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ رام مندر کے نام پر گزشتہ دو تین ماہ سے جو ہنگامہ آرائی جاری تھی وہ اب کمزور پڑ گئی ہے۔
اس کو ہوا دینے والے بھی سنگھ پریوار کے لوگ تھے اور اب اسے ٹھنڈا کرنے والے بھی وہی لوگ ہیں۔ انھوں نے جس جنون کو سانپ کی مانند دودھ پلا پلا کر پروان چڑھایا تھا جب وہی سانپ ان کو ڈسنے کے لیے دوڑ پڑا تو انھیں اپنی عاقبت کی فکر ہو گئی۔ پریاگ کے کمبھ میلے میں اس مہم کو بڑی طاقت کے ساتھ چھیڑا گیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بس کمبھ ختم ہوتے ہی رام مندر کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس درمیان آر ایس ایس اور بی جے پی رہنماؤں پر رام مندر کے نام پر بھڑکائے جانے والوں کا غصہ پھوٹنے لگا۔
انھوں نے یہ اعلان کرنا شروع کر دیا کہ اگر الیکشن سے پہلے رام مندر کی تعمیر کا آغاز نہیں ہوا تو وہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے اور مودی کو حکومت میں آنے نہیں دیں گے۔ ادھر حکومت نے بھی اپنی جانب سے پوری کوشش کی کہ اس کام کا آغاز ہو جائے۔ اس کے لیے وہ سپریم کورٹ بھی چلی گئی اور بابری مسجد کی متنازعہ زمین سے متصل تحویل شدہ قطہ آراضی کو رام مندر ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ لیکن سپریم کورٹ نے جو ابھی تک حکومت اور سنگھ پریوار اور سادھو سنتوں کے دباؤ میں نہیں آیا ہے، اس معاملے پر بھی کوئی سرگرمی نہیں دکھائی۔ قانونی ماہرین کہنے لگے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔
ادھر آر ایس ایس اور بی جے پی نے جب دیکھا کہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کروانا آسان نہیں ہے تو سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے ایک حکمت عملی کے تحت پسپائی اختیار کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ انھوں نے ایک تقریر میں کہا کہ سابق سرسنگھ چالک دیورس نے کہا تھا کہ مندر کی تعمیر کا آغاز تیس بتیس سال بعد ہو سکے گا اور تین سال بعد اس تحریک کے تیس سال پورے ہو جائیں گے۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگا۔
ان کے اتنا کہتے ہی ہندووں کے ایک طبقے میں اشتعال پیدا ہو گیا اور انھوں نے ان کے بیان کی مخالفت شرع کر دی۔ یہاں تک کہ وشو ہندو پریشد کے جلسے میں جہاں انھوں نے یہ بیان دیا تھا ہنگامہ آرائی ہوگئی اور بہت سے لوگوں نے نعرہ بازی شروع کر دی۔ اس سے قبل آر ایس ایس کے ایک اور بڑے لیڈر بھیا جی جوشی نے کہا تھا کہ 2025 میں رام مندر کی تعمیر ہو پائے گی اور اس کے بعد ملک ترقی کرے گا۔ ان کے اس بیان پر بھی ہنگامہ ہوا تھا۔ لوگوں نے یہ سمجھا تھا کہ شاید انھوں نے بطور طنز یہ بات کہی تھی۔ لیکن اب اندازہ ہوا کہ نہیں ان سے یہ بیان دلوایا گیا تھا اور اس کا مقصد یہ جاننا تھا کہ اس کا ہندووں کی جانب سے کیا رد عمل ہوتا ہے۔ جب کوئی بہت سخت رد عمل نہیں ہوا تو موہن بھاگوت نے مذکورہ اعلان کیا۔
Published: undefined
اسی درمیان وشو ہندو پریشد اور شنکر آچاریہ سوامی سروپا نند ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے۔ سوامی سروپانند نے کمبھ میلے میں پرم دھرم سنسد بلا کر اعلان کر دیا کہ 21 فروری کو ایودھیا تک کوچ کیا جائے گا اور رام مندر کا سنگ بنیاد رکھا جائے گا۔ ان کے اس اعلان کے بعد ہی وشو ہندو پریشد میں کھلبلی مچ گئی اور دو روز بعد اس کی بھی ایک دھرم سنسد ہوئی جس میں سروپانند کی مخالفت کی گئی۔ پریشد سے وابستہ سادھووں نے کہنا شروع کر دیا کہ سروپانند کو کوئی حق نہیں پہنچتا۔ اس کے بعد تو لٹھم لٹھا شروع ہو گیا۔ نیوز چینلوں پر وہ بحث ہوئی کہ اللہ کی پناہ۔ یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ اب جبکہ ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کی تعمیر شروع ہو جائے گی تو اس کا کریڈٹ لینے کی ہوڑ لگ گئی۔
لیکن چونکہ حکومت سمجھتی ہے کہ یہ کام آسان نہیں ہے۔ سپریم کورٹ میں مقدمہ چل رہا ہے جب تک اس کا کوئی فیصلہ نہ آجائے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔ لیکن وہ لوگوں کے جذبات کو کیا کرے جو بہت زیادہ بھڑک گئے ہیں۔ حکومت نے سوچا کہ چونکہ عدالت پر کوئی دباؤ کام نہیں کر رہا ہے اس لیے پلان بنایا گیا کہ فی الحال اس آگ کو ٹھنڈا کیا جائے۔ کیونکہ اگر یہ آگ نہیں بجھی اور رام مندر کی تعمیر کا آغاز نہیں ہو پایا تو رام مندر حامی ہندووں کے ووٹ بی جے پی سے کٹ سکتے ہیں اور اگر ایسا ہوا تو اس کو سیاسی نقصان ہو سکتا ہے۔
لہٰذا پلان بنایا گیا کہ اس معاملے پر لوگوں کے جذبات کو سرد کرنے کی کوشش کی جائے۔ بس موہن بھاگوت نے اعلان کر دیا کہ اب رام مندر کے ایشو کو چار ماہ کے لیے ٹالا جا رہا ہے۔ اگلی حکومت بننے کے بعد خواہ وہ کسی کی بھی بنے یہ کام پھر سروع کیا جائے گا۔ اس بارے میں یہ بہانا تراشا گیا کہ ہم نہیں چاہتے کہ لوگ یہ کہیں کہ رام مندر کو سیاسی ایشو بنایا دیا گیا ہے۔ یہ ہمارے لیے آستھا کا مسئلہ ہے سیاسی نہیں۔ گویا اپنی عزت بچانے کے لیے ایک لولا لنگڑا بہانا بنایا گیا۔
حالانکہ دنیا جانتی ہے کہ یہ معاملہ آستھا کا کم سیاست کا زیادہ ہے۔ سادہ لوح ہندووں کے لیے تو یہ آستھا کا معاملہ ہو سکتا ہے لیکن بی جے پی، وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس کے لیے یہ ایک خالص سیاسی مسئلہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو الیکشن کے مواقع پر ہی اسے کیوں اٹھایا جاتا۔ بہر حال جب سنگھ پریوار کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اس معاملے سے سیاسی نقصان ہونے والا ہے تو پھر قدم پیچھے ہٹا لیے گئے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined