بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان اور کسان تحریک کی ایک مقبول شخصیت راکیش ٹکیت اور سوراج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے گزشتہ 26 جولائی کو لکھنؤ کا دورہ کیا اور وہاں ایک پریس کانفرنس کرکے کسانوں کے مسائل اٹھائے۔ اس موقع پر راکیش ٹکیت نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت ووٹ کی زبان سمجھتی ہے تو اسے ووٹ کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔ انھوں نے کسانوں کی فصلوں کی ایم ایس پی بڑھانے کے سلسلے میں کہا کہ اگر حکومت کسانوں کی بات نہیں مانتی ہے تو ہم لکھنؤ کو بھی دلّی بنا دیں گے اور یہاں بھی کسانوں کو لا کر بھر دیں گے۔
Published: undefined
انھوں نے پانچ اگست کو مظفنگر میں مہا پنچایت کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ پورے اترپردیش میں کسانوں کی مہاپنچایتیں کی جائیں گی اور اگلے سال کے اوائل میں یو پی میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لیے اس کے خلاف انتخابی مہم چلائی جائے گی۔ اس سے قبل بھی وہ اس قسم کا اعلان کر چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کسان کسی پارٹی کے حق میں مہم نہیں چلائیں گے بلکہ بی جے پی کو شکست دینے کی مہم چلائیں گے۔ ان کے مطابق کسانوں نے مغربی بنگال میں بھی بی جے پی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ وہ اپنے انداز میں کہتے ہیں کہ کسانوں نے بنگال میں بی جے پی کو جو دوا پلائی تھی وہی دوا یو پی میں بھی پلائی جائے گی اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی پلائی جائے گی۔
Published: undefined
ان کا لکھنؤ میں کسانوں کو جمع کرنے کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جس طرح دہلی کے تین بارڈرس سنگھو، غازی آباد اور ٹیکری پر کسان آٹھ ماہ سے جمے ہوئے ہیں اسی طرح لکھنؤ میں بھی آکر جم جائیں گے۔ بلکہ ان کے کہنے کا یہ مطلب تھا کہ حکومت کے خلاف پوری ریاست میں آندولن چلایا جائے گا۔ لیکن ان کی اس وارننگ کو بی جے پی نے دوسرا مطلب پہنا دیا اور اس کے آئی ٹی سیل نے ایک ایسا متنازعہ کارٹون اپنے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کیا جس پر سوشل میڈیا کے علاوہ سیاسی و صحافتی حلقوں میں بھی زبردست تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اور اس کارٹون کی وجہ سے بی جے پی کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔
Published: undefined
اس کارٹون میں دو کردار ہیں۔ ایک کردار کسان کا ہے اور دوسرا ایک باہو بلی کا ہے۔ کسان کا حلیہ بالکل راکیش ٹکیت سے ملتا جلتا ہے۔ ان کے ایک ہاتھ میں گدا ہے جسے وہ اپنے کندھے پر رکھے ہوئے ہیں اور اس پر کسان آندولن لکھا ہوا ہے۔ جبکہ دوسرے ہاتھ سے وہ ایک شخص کو بالوں کو پکڑ کر گھسیٹ رہے ہیں اور اس پر دلّی لکھا ہوا ہے۔ جبکہ دوسرے کردار کا حلیہ مختار انصاری سے ملتا جلتا ہے۔ یہ کردار کسان سے کہہ رہا ہے کہ سنا ہے کہ تم لکھنؤ جا رہے ہو۔ وہاں پنگا نہ لے لینا بھائی۔ یوگی بیٹھا ہوا ہے۔ وہ بکل اتار دیا کرے اور پوسٹر بھی لگا دیا کرے ہے۔ خیال رہے کہ راکیش ٹکیت کسان مخالف نیتاؤں کو وارننگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم ان کے بکل اتار دیں گے۔
Published: undefined
اسی کارٹون میں کسان کا کردار ادا کرنے والا خیالوں میں سوچتا ہے کہ ایک بھگوا دھاری اس کے سر کے بالوں کو پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا ہے۔ اس کردار کی ٹوپی گر گئی ہے۔ بھگوا دھاری سے لوگ یوگی کو مراد لے رہے ہیں اور جسے گھسیٹا جا رہا ہے اسے راکیش ٹکیت سمجھا جا رہا ہے۔ اس کارٹون پر زبردست ہنگامہ ہے اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی نے اس کارٹون کے بہانے اتر پردیش میں چل رہی غنڈہ گردی کو دکھایا ہے۔ ان کے مطابق یو پی میں جب سے یوگی وزیر اعلیٰ بنے ہیں غنڈہ گردی شباب پر ہے۔ پولیس کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اور جرائم پیشہ افراد کی بن آئی ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم بڑھ گئے ہیں اور اقلیتوں اور دبے کچلے لوگوں کے خلاف بھی وارداتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
Published: undefined
کارٹون میں پوسٹر لگوا دینے سے مراد یہ لیا جا رہا ہے کہ کس طرح یوگی نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے پوسٹر شہر میں لگوائے تھے اور فسادات کے دوران جو نقصان ہوا تھا اس کی بھرپائی مظاہرین کی املاک کی قرقی کرکے کی جا رہی تھی۔ حالانکہ الہ آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے بھی پوسٹر لگانے پر شدید رد عمل کا اظہار کیا تھا اور یوگی حکومت کو ان پوسٹرس کو فوراً اتار دینے کی ہدایت دی تھی۔ ایک بار نہیں بار بار یو پی حکومت کی کارستانیوں پر عدالتیں وزیر اعلیٰ اور حکومت کو پھٹکار لگا چکی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یو پی حکومت اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہی ہے۔ مذکورہ کارٹون کو بھی اس کی دبنگئی قرار دیا جا رہا ہے۔ ایسی دبنگئی جس کی ایک جمہوری ملک میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
Published: undefined
اس کارٹون کے حوالے سے کسانوں میں زبردست ناراضگی ہے۔ یہ ناراضگی دہلی کی تینوں سرحدوں پر بھی دیکھی جا سکتی ہے اور جنتر منتر پر بھی جہاں روزانہ کسانوں کی پارلیمنٹ چل رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یوگی جی ہم سے پنگا لینا چاہتے ہیں تو ضرور لیں لیکن انجام کی ذمہ داری ہماری نہیں ہوگی۔ ان کے خیال میں بی جے پی کے ٹوئٹر ہینڈل سے جو کارٹون پوسٹ کیا گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ اس کو بی جے پی اعلیٰ کمان کی بھی حمایت حاصل ہے اور یوپی حکومت کی بھی۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ابھی تک بی جے پی کے کسی لیڈر نے اس کارٹون پر اظہار افسوس نہیں کیا اور نہ ہی اسے ہٹانے کی ہدایت دی۔
Published: undefined
دراصل بی جے پی حکومت خواہ وہ مرکز کی ہو یا اترپردیش کی یہ سمجھے بیٹھی ہے کہ کسانوں کی یہ تحریک ایک دن اپنی موت آپ مر جائے گی۔ آخر کسان کب تک اس طرح کھلے میں دھرنا دیتے رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ تینوں زرعی قوانین کے سلسلے میں حکومت اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہو رہی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ کسانوں نے بھی واپس نہ جانے کا تہیہ کر لیا ہے۔ انھوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے وہ واپس نہیں جائیں گے۔ شروع میں ان کا خیال تھا کہ جب وہ سڑکوں پر اتریں گے تو ایک ہفتہ یا دو ہفتے میں ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا۔ انھیں یہ امید نہیں تھی کہ آٹھ ماہ کی تحریک کے باوجود کوئی امید افزا صورت پیدا نہیں ہو سکے گی۔
Published: undefined
اس لیے اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسانوں کی یہ تحریک کوئی دوسری شکل اختیار کرنے جا رہی ہے۔ بہت سے کسانوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ وہ 2024 تک تحریک چلانے کے لیے تیار ہیں۔ بعض اوقات ان کے حوصلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ واقعی کسان اس سے پہلے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ دہلی سے متصل تینوں سرحدوں سنگھو، غازی آباد اور ٹکری پر کسانوں نے الگ الگ قسم کے خیمے نصب کیے ہوئے ہیں۔ کہیں عارضی خیمے ہیں تو کہیں مستقل۔ کہیں پنکھے سے کام چلایا جا رہا ہے تو کہیں کولر سے اور کہیں کہیں تو اے سی بھی نصب ہیں۔
Published: undefined
کسانوں نے اس دوران خاصی پریشانیاں بھی اٹھائی ہیں۔ کڑاکے کی سردیوں میں بھی وہ جمے رہے اور موسلا دھار بارشوں میں بھی اور اب تپتی گرمی کے بعد حبس زدہ گرمی میں بھی اور دہلی میں ہونے والی بارش میں بھی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے جتنی پریشانیاں اٹھائی ہیں وہ واپس جانے کے لیے نہیں اٹھائی ہیں۔ ان کے مطابق اس دوران آندھیاں بھی آئیں جو ان کے خیموں کو کئی کئی کلومیٹر تک اڑا لے گئیں۔ لیکن انھوں نے ان خیموں کو پھر اکٹھا کیا اور پھر سے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ بالکل اسی طرح جیسے طوفان باد و باراں پرندوں کے گھونسلے اڑا لے جائے۔ وہ اپنے نشیمن سے محروم ہو جائیں اور پھر ایک ایک تنکہ اکٹھا کرکے نیا نشیمن بنائیں اور رہنا شروع کر دیں۔
Published: undefined
حالانکہ اب کسانوں کی خبریں میڈیا سے غائب ہو گئی ہیں یا غائب کر دی گئی ہیں۔ اب گودی میڈیا ان کی خبریں نہیں دکھاتا۔ لیکن سوشل میڈیا پر اب بھی ان کی خبروں کی بھرمار ہے۔ گزشتہ دو تین مہینوں کے دوران ایسا لگتا تھا کہ کسانوں کی تحریک کمزور پڑ رہی ہے۔ لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اب ایک بار پھر ان میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہو گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے گزشتہ دنوں جو مرحلہ آیا تھا وہ ’’آگے بڑھیں گے ذرا دم لے کر‘‘والا معاملہ تھا۔ ایک بار پھر کسان تحریک میں جان آگئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگلے سال کے اوائل میں گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ یہ لڑائی ان پانچوں ریاستوں میں ہوگی جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی اور یوگی جی یہ نہ سمجھیں کہ وہ کسانوں کو زیر کر لیں گے۔ کسانوں سے پنگا لینا بہت بھاری پڑے گا اور اس کا نتیجہ اگلے سال کے اسمبلی انتخابات میں نظر آجائے گا۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز