سیاسی

موج پور کی طرح سڑکوں پر مت اتریئے ورنہ بال و پر جل جائیں گے... ظفر آغا

یاد رکھیے۔ بی جے پی شاہین باغ سے شروع ہونے والی تاریخ ساز تحریک کو ہندو-مسلم رنگ دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ اس لیے کوئی بھی تحریک موج پور کی طرح نہیں بلکہ ’شاہین باغ ماڈل‘ پر ہونی چاہیے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا 

کل یعنی 23 فروری (اتوار) سے دہلی کے موج پور علاقے سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ وہاں شہری ترمیمی قانون اور این آر سی و این پی آر کے خلاف چل رہے احتجاج میں کچھ ہنگامہ بپا ہو گیا۔ خبروں کے مطابق اس سلسلے میں موج پور میں جو دھرنا چل رہا تھا اس میں شرکت کرنے والے افراد سڑکوں پر آ گئے۔ اس کی مخالفت میں فوراً بی جے پی کے علاقائی لیڈر کپل مشرا فوراً ایک جلوس لے کر وہاں پہنچ گئے۔ پھر دونوں گروہوں میں پتھراؤ ہوا اور پولس کو ایکشن لینا پڑا۔ اسی قسم کی خبریں دہلی کے حوض رانی اور علی گڑھ کے اوپر کورٹ علاقے سے بھی موصول ہوئیں جہاں احتجاجیوں اور پولس کے درمیان گڑبڑ ہوئی۔ موج پور سے آج بھی کچھ تشفی بخش خبریں نہیں موصول ہو رہی ہیں۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

دراصل 23 فرروری کو دلت لیڈر اور بھیم آرمی چیف چندر شیکھر آزاد نے ’بھارت بند‘ کی کال دی تھی۔ موج پور اور حوض رانی اور غالباً علی گڑھ کے سی اے اے، این آر سی و این پی آر مخالفین اس کال پر اپنے احتجاج کی جگہ سے اٹھ کر اس بند میں شرکت کے لیے سڑک پر نکل پڑے۔ اور بس پولس متحرک ہو گئی۔ موج پور میں بی جے پی کے ممبران نے اس کا فائدہ اٹھا کر حالات بگاڑ دیئے۔ اور اس طرح وہ دھرنا جو بے حد پرامن طریقے سے چل رہا تھا، مخالفین کو اس کو بدنام کرنے کا موقع مل گیا۔ اور یہ بات افسوسناک ہی نہیں بلکہ تشویش ناک بھی ہے۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

دراصل شاہین باغ سے جو شہریت ترمیمی قانون اور این پی آر و این آر سی مخالف تحریک شروع ہوئی ہے وہ ایک مثالی تحریک ہے۔ اس تحریک کے تین اہم پہلو ہیں جس کے سبب اس تحریک نے پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے لیا ہے۔ اب یہ عالم ہے کہ ملک میں سو جگہوں سے زیادہ شاہین باغ کے طرز پر یہ احتجاج چل رہا ہے۔ اس تحریک کی سب سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ اس میں عورتیں آگے آگے ہیں۔ دوسری سب سے اہم بات جس نے شاہین باغ تحریک کی ساری دنیا میں واہ واہی کروا دی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تحریک پوری طرح پرامن ہے اور گاندھیائی طرز پر چل رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ شاہین باغ میں تحریک مخالف عناصر نے وہاں مخالف مجمع کو طرح طرح سے اشتعال دلوانے کی کوشش کی لیکن شاہین باغ میں اکٹھا مجمع مشتعل نہیں ہوا۔ یعنی شاہین باغ ماڈل پر چلنے والا احتجاج نہ تو اپنی جگہ سے باہر نکلا اور نہ ہی تمام کوششوں کے باوجود وہ مجمع مشتعل ہوا۔ تیسری بات جو شاہین باغ تحریک کو منفرد کردار بخشتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ تحریک پوری طرح سے سیکولر ہے۔ اس میں کسی طرح کی کوئی مذہبی نعرہ بازی، مثلاً ’اللہ اکبر‘ نہیں ہو رہی ہے، اور ان ہی تین باتوں کی وجہ سے شاہین باغ تحریک میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی سب ہی برابر کے شریک ہیں۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

لیکن دہلی کے موج پور اور حوض رانی علاقے میں 23 فروری کو جو ہوا وہ شاہین باغ ماڈل سے کچھ مختلف تھا۔ موج پور اور حوض رانی کے مظاہرین اپنے اپنے پارکوں سے نکل کر سڑک پر ایک مظاہرے کی شکل میں اپنے مقام سے باہر آ گئے۔ وہ بھیم آرمی کے بھارت بند کی حمایت میں باہر آ گئے تھے۔ جب کہ شاہین باغ کا دھرنا اسی طرح پرامن طریقے سے جاری رہا۔ راقم الحروف کی ادنیٰ رائے میں موج پور والوں کو اپنا احتجاج دھرنے کی شکل میں جاری رکھنا چاہیے تھا۔ کسی قسم کے جلوس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جیسے ہی سڑکوں پر جلوس نکلا ویسے ہی بی جے پی کارکنان کو موقع مل گیا اور اس طرح دو گروہوں میں آپسی تصادم بھی ہوا۔ اور پھر پولس ایکشن بھی ہوا۔ اس طرح بی جے پی کو اس پوری تحریک کو ہندو-مسلم رنگ دینے کا موقع مل گیا۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

یاد رکھیے۔ بی جے پی شاہین باغ سے شروع ہونے والی تاریخ ساز تحریک کو ہندو-مسلم رنگ دینے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ دراصل شہری قانون میں ترمیم اور این پی آر و این آر سی کا قضیہ اسی لیے کھڑا کیا گیا ہے کہ اس نام پر سارا ملک ہندو-مسلم کے نام پر ویسے ہی بانٹ دیا جائے جیسے کبھی بابری مسجد اور رام مندر کے نام پر بانٹ دیا گیا تھا۔ بابری مسجد تحریک کی یہی غلطی تھی کہ وہ نعرۂ تکبیر اور مذہبی رنگ کے ساتھ چلائی گئی۔ بس وشو ہندو پریشد کو ’جے سیا رام‘ نعرہ لگانے اور ہندوؤں کو رام مندر کے نام پر بی جے پی کے پرچم تلے اکٹھا کرنے کا موقع مل گیا۔ اس کا جو خمیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑا اس سے آپ صرف واقف ہی نہیں بلکہ اس کا تلخ تجربہ بھی آپ کو ہے۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

خیال رہے کہ اگر آپ ایک غلط قدم اٹھائیں گے تو بی جے پی اس کو منٹوں میں ہندو رد عمل میں تبدیل کر دے گی۔ اس ملک میں کوئی بھی مسلم مفاد میں چلنے والی تحریک پرتشدد یا مذہبی طرز پر چلے گی تو اس کا فائدہ صرف بی جے پی کو اور نقصان صرف مسلمان کا ہوگا۔ اس لیے خدارا شہریت قانون اور این آر سی و این پی آر مخالف تحریک سارے ملک میں محض شاہین باغ ماڈل پر پرامن طریقے سے ایک مقام پر دھرنے کی شکل میں ہی چلنی چاہیے۔ اگر آپ سڑکوں پر اتریں گے تو پھر بی جے پی بھی سڑکوں پر اترے گی جیسا کہ موج پور میں ہو رہا ہے۔ پھر تصادم ہوگا، پولس ایکشن میں آپ مارے جائیں گے اور پھر پوری تحریک ہندو-مسلم کا رنگ لے گی اور بابری مسجد تحریک کی طرح فائدہ صرف بی جے پی کو ہوگا۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

اس لیے صرف اور صرف شاہین باغ ماڈل پر چلتے رہیے اور موج پور ماڈل سے بالکل دور رہیے۔ اس تحریک کو سڑکوں پر جلسے و جلوس کی شکل دینے میں پوری تحریک ناکام ہوگی۔ اس لیے خواہ وہ موج پور ہو یا کوئی اور جگہ ہر جگہ صرف شاہین باغ ماڈل پر صرف پرامن دھرنا ہی اس تحریک کو کامیاب بنا سکتا ہے۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 24 Feb 2020, 5:11 PM IST