جب تک یہ خبر شائع ہو گی اس وقت تک اتر پردیش کے گورکھپور میں دو دہائی سے ناقابل تسخیر رہا وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کا قلعہ منہدم چکا ہوگا اور نائب وزیر اعلی کے حلقہ پھولپور میں بی جے پی کا کمل مرجھا چکا ہوگا۔ ساتھ ہی بہار کے ارریہ میں بھی ووٹرز موقع پرست اور تقسیم کاری کی سیاست کو مسترد کر چکے ہوں گے۔ یہ جملہ مستقبل کے انداز میں اس لئے ہیں کیوں کہ سرکاری عملہ جان بوجھ کر جیت کا اعلان کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔
جب سچائی کا سامنا کرنے سے ڈر لگنے لگا ہے تو حقیقت پر پر دے ڈالے گئے اور سچ جاننے کی کوشش کرنے والوں کو 15 فٹ پیچھے دھکیل دیا گیا۔ لیکن فریب کی دیواریں اور خرافاتی سازشوں کے پردے پھاڑ کر سچ سامنے آ چکا ہے اور ہندو یووا واہنی کے سہارے ہواؤں پر سوار بھگوا لہر کا اختتام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ عام طور پر ہر الیکشن میں ووٹوں کی گنتی کے دوران عام لوگوں کو یہ جاننے کا حق رہتا ہے کہ کون آگے ہے اور کون پیچھے۔ اس کام کو میڈیا اہلکار انجام دیتے ہیں۔ لیکن گورکھپور میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے گڑھ میں ووٹوں کی گنتی کے دوران انتظامیہ نے نا قابل یقین قدم اٹھاتے ہوئے ووٹوں کی گنتی کی لائیو رپورٹنگ پر قدغن لگا دی۔ انہوں نے گنتی کے مرکز سے میڈیا اہلکاروں کو 15 فٹ پیچھے دھکا دے دیا۔ جس شامیانہ میں ووٹ شماری کا عمل جاری تھا وہاں پردے ڈال دئے گئے۔ یہ کام گورکھپور کے ضلع مجسٹریٹ راجیو روتیلا کی طرف سے انجام دیا گیا۔ یہ وہی راجیو روتیلا ہیں جن پر کان کنی معاملے میں الزامات عائد ہوئے تھے اور ہائی کورٹ نے انہیں معطل کر دیا تھا۔
لیکن جوں جوں رجحانات سامنے آتے گئے بی جے پی کی شکست یقینی ہوتی چلی گئی۔ یہ عوام کی جانب سے بڑا جھٹکا بی جے پی کے لئے ہے اس سے کہیں بڑا دھکا یوگی آدتیہ ناتھ کے لئے بھی ہے۔ چونکہ گورکھ ناتھ پیٹھ کے مہنت بھی ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں یوگی آدتیہ ناتھ ان دونوں وی آئی پی لوک سبھا سیٹوں پر تشہیر کا اہم چہرہ بھی تھے۔انہوں نے مہم کے دوران ضمنی انتخابات کو 2019 کے لوک سبھا انتخابات کی ریہرسل قرار دیا تھا۔ ایک چینل کے ساتھ بات چیت کے دوران یوگی نے کہا تھا کہ ان کی جیت کا فرق اتنا بڑا ہوگا کہ لوگ دیکھتے رہ جائیں گے۔
لیکن بووا -بھتیجے کی جوڑی کے سامنے نہ تو بھگوا چلا اور نہ ہی گورکھ ناتھ مٹھ اورنہ ہی ہندو یوا واہنی کے دم پر تفریق کی سیاست کرنے والے یوگی آدتیہ ناتھ کا اعتماد۔ اس الیکشن نے ہولی کے بہانے نماز جمعہ پر تبصرہ، عید نہ منانے کا بیان، قبرستان -شمشان کا موازنہ اور انکاؤنٹر کی سیاست کو پوری طرح خارج کر دیا۔
اتر پردیش کا یہ ضمنی انتخاب اگرچہ دو لوک سبھا سیٹوں کا رہا لیکن اس سے آنے والے لوک سبھا انتخابات کا رخ کچھ حد تک واضح ہوتا نظر آ رہا ہے۔ دانشمندانہ اتحاد، نشستوں کے سماجی تانے بانے کو ذہن میں رکھتے ہوئے چنے گئے امیدوار، سیاسی نرمی، پورے کئے جانے کے قابل وعدے اور ملک پر منڈلاتے آئینی بحران کی بات، لوگوں کو سمجھا پانے کی حکمت عملی ،اس لہر کا جواب ثابت ہو سکتے ہیں، جس نے 2014 میں 30 سال بعد تاریخ رقم دی تھی۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز