کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چاند پر تھوکنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ تھوک پلٹ کر خود اسی کے چہرے پر آپڑتا ہے۔ آجکل سردھنہ یو پی سے بی جے پی کے رکن اسمبلی سنگیت سوم کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ انھوں نے اپنی ذہنی خباثت کا مظاہرہ کیا کیا کہ خود انھی کا چہرہ کلنکت ہو گیا۔ انھوں نے شہرہ آفاق عمارت تاج محل کے بارے میں انتہائی نازیبا جملے ادا کیے۔ انھوں نے تاج کو غداروں کا تعمیر کردہ بتایا اور کہا کہ اس کا معمار ہندووں کا قتل عام چاہتا تھا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ تاج محل ہندوستانی تہذیب و ثقافت پر ایک بدنما داغ ہے۔ انھوں نے مغلوں کی تاریخ تبدیل کرنے کی بھی بات کہی اور ا س کی گارنٹی بھی لی۔ شاید یو پی حکومت کی جانب سے تاج محل کو ریاست کے سیاحتی کتابچے سے خارج کرنے اور اس سے قبل وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے اس بیان سے کہ تاج محل ہندوستانی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرتا، سنگیت سوم کو ایسا بیان دینے کا حوصلہ ملا۔ انھوں نے سوچا ہوگا کہ جب ہمارے یوگی جی تاج کے بارے میں بیان دے چکے ہیں تو میں بھی بیان دیتا ہوں اور ان سے دو قدم آگے چلا جاتا ہوں۔ انھیں امید نہیں تھی کہ ان کے بیان پر اس قدر شدید رد عمل ظاہر کیا جائے گا۔ ابھی ان کے بیان سے اٹھے طوفان کی گرد بیٹھی بھی نہیں تھی کہ بی جے پی کے ایک اور متنازعہ لیڈر اس تنازعہ میں کود پڑے۔ بی جے پی کے ممبر آف پارلیمنٹ ونے کٹیار نے کہا ہے کہ تاج محل شیو مندر کو منہدم کرکے تعمیر کیا گیا۔ ان کا دعوی ہے کہ وہاں پہلے شیو مندر تھا جسے توڑ کر تاج محل کی تعمیر کی گئی۔ وہ پہلے بھی اس قسم کا متنازعہ بیان دے چکے ہیں۔
بہر حال سنگیت سوم کے بیان پر بی جے پی کو صفائی دیتی نہیں بن پڑ رہی ہے۔ کسی لیڈر کا کہنا ہے کہ وہ ان کا اپنا ذاتی بیان ہے تو کسی کا کہنا ہے کہ مغلوں کا دور عدم رواداری کا دور تھا۔ لیکن جب اس معاملے پر ہنگامہ بڑھتا ہی گیا تو وزیر اعظم نریند رمودی اور وزیر اعلی یوگی کو سامنے آنا پڑا۔ مودی نے دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اپنے تاریخی ورثے پر فخر کرنا نہیں جانے گا۔ ادھر یوگی نے بیان دیا کہ تاج محل ہندوستانی مزدوروں کے خون پسینے سے تعمیر کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ 26 اکتوبر کو آگرہ جائیں گے اور تاج محل اور آثار قدیمہ کی دیگر عمارتوں کے درشن کریں گے اور اس کا جائزہ لیں گے کہ آگرہ اور تاج کی ترقی کے لیے جو کروڑوں روپے کا منصوبہ منظور کیا گیا ہے اس پر کیسے کام ہو رہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یوگی نے سنگیت سوم سے وضاحت طلب کر لی ہے کہ انھوں نے ایسا بیان کیوں دیا۔
سمجھا جاتا ہے کہ تاج محل پر سوم کے بیان سے بی جے پی دفاعی پوزیشن میں آگئی۔ حالانکہ وہ مذہبی منافرت کی سیاست کرتی ہے اور مذہب کے نام پر لوگوں کو تقسیم کرکے سیاسی روٹی سینکتی رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ لکھنؤ میں عنقریب ہونے جا رہے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی خلیج قائم کرنے کے مقصد سے مذکورہ بیان دیا گیا ہے۔ شاید سوم کو اور بی جے پی لیڈروں کو بھی یہ اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ اس قسم کے بیان پر اتنا شدید رد عمل سامنے آئے گا۔ سوم کا بیان کیا آیا کہ اس کی مذمتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹویٹر پر صرف ایک دن میں دس ہزار سے زائد افراد نے رد عمل ظاہر کیا اور اکثریت نے بیان کی مذمت کی اور اسے منافرت پھیلانے والا قرار دیا۔ گویا پانسہ پلٹ گیا۔ کیونکہ بیان کی مذمت کرنے والوں میں اکثریت ہندووں کی ہے۔ مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والوں نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ سنگیت سوم ایک متنازعہ لیڈر ہیں۔ ان پر مظفر نگر فساد میں گھناونا رول ادا کرنے اور فساد بھڑکانے کا الزام ہے۔ وہ اس سے قبل بھی اس قسم کے گھناونے بیانات دیتے رہے ہیں۔ لیکن شاید یہ پہلا موقع ہے جب ان کو اس قدر شدید تنقید اور مذمت کا نشانہ بننا پڑا ہے۔
متعدد تعلیم یافتہ ہندووں اور اخبار نویسوں نے بھی بیان کی مذمت کی اور اسے تاریخ سے لاعلمی قرار دیا۔ اخبارات نے اپنے اداریوں میں تاج محل جیسی شاندار اور قابل فخر عمارت کا دفاع کیا۔ کچھ لوگوں نے یہ سوالات بھی اٹھائے کہ لال قلعہ بھی مغلوں کا تعمیر کردہ ہے تو کیا وزیر اعظم اب وہاں سے ترنگا نہیں پھہرائیں گے۔ پارلیمنٹ ہاوس، راشٹر پتی بھون، قطب مینار، حیدرآباد ہاوس اور دیگر عمارتوں کے بارے میں بھی کہا گیا کہ وہ بھی غلامی کی نشانیاں ہیں لہٰذا انھیں بھی منہدم کر دیا جائے۔ در اصل سنگیت سوم جیسے لوگوں کی ذہنیت طالبانی ذہنیت جیسی ہے۔ کیا کوئی افغانستان کے بامیان میں واقع گوتم بدھ کے اس تاریخی مجسمے کو فراموش کر سکتا ہے جسے طالبان نے غیر اسلامی قرار دے کر منہدم کر دیا تھا۔ بالکل انھی کی مانند بی جے پی اور آر ایس ایس کے بہت سے عناصر مسلم دور حکومت کے آثار کو تاریخ سے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تاریخ کو بھی از سر نو لکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں بی جے اقتدار والی ریاستوں میں کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ تاریخ کو بالکل ہی پلٹ دینے کی تیاری ہے۔ لیکن کیا اس طرح تاریخ کے صفحات سے حقائق کو مٹایا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے ہندووں اور مسلمانوں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے تاریخ کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ کی تھی اس کا اعادہ آر ایس ایس والے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔
دنیا میں ایسے بے شمار ملک ہیں جہاں ایسے آثار موجود ہیں جو اکثریت کے مذہبی رجحانات کے برعکس ہیں اور انھیں اکثریتی طبقہ نے نہیں بلکہ دوسروں نے تعمیر کیا تھا اور وہ لوگ ان آثار پر فخر کرتے ہیں۔ اس قسم کے آثار صرف تاریخی و ثقافتی ورثہ نہیں ہوتے بلکہ ملک کی شان ہوتے ہیں۔ سیاحتی مراکز ہوتے ہیں اور ان سے ملک کی آمدنی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ خود تاج محل سے ملک کو سالانہ سیکڑوں کروڑ روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔ ایک انگریزی روزنامہ نے بجا طور پر اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ گوا کی سیاحت اس تاریخی حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ پرتگالیوں کی کالونی تھا۔ پانڈوچیری میں جو فرانسیسی ورثے ہیں وہ سیاحوں کے لیے زبردست کشش رکھتے ہیں۔ کیرالہ کے گرجا گھر اور یہودی معبدوں کے دیدار کے لیے پوری دنیا سے سیاح آتے ہیں۔ یہ آثار دیسی نہیں ہیں یا ہندو ثقافت کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ ایک مشترکہ ثقافت کی نمائندگی بالکل اسی طرح کرتے ہیں جس طرح تاج محل ہندوستان کی مشترکہ ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ بی بی سی ہندی کے پریہ درشن نے اپنے ایک طویل مضمون میں سنگیت سوم سے پوچھا ہے کہ وہ آخر کیا کیا چھوڑیں گے۔ انھوں نے ایسی بہت سی چیزوں کو گنایا ہے جو ہندووں سے نسبت نہیں رکھتیں۔ یہاں تک کہ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سنگیت سوم جیسے لوگوں کو لفظ ’’ہندو‘‘ بھی ترک کر دینا چاہیے۔ کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کا دیا ہوا ہے۔ اسی طرح کرتا پائجامہ کو بھی چھوڑ دینا چاہیے اور صرف دھوتی زیب تن کرنی چاہیے۔ انھوں نے ان اشیا کی ایک طویل فہرست پیش کی ہے جو مسلمانوں سے نسبت رکھتی ہیں۔
بہر حال یہ سب سیاست ہے۔ جب بھی ملک میں کہیں انتخابات ہونے والے ہوتے ہیں تو بی جے پی کی جانب سے اس قسم کی متنازعہ باتیں چھیڑ دی جاتی ہیں اور ان کی بنیاد پر ملک کی دو بڑی اکثریتوں کے درمیان نفرت کی خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ہندوستان کے عوام اب ان کی گھٹیا سیاست کو سمجھ گئے ہیں۔ وہ اب ان کے فریب میں آنے والے نہیں ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined