بین الاقوامی اصولوں پر مبنی نظام دراصل ’جنگل راج‘ کی ایک شکل ہے جو گلوبل پاور پالیٹکس کو متعارف کرتا ہے۔
’طاقتور یا مضبوط لوگ وہی کرتے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں اور کمزور لوگ وہی سہتے ہیں جو انھیں سہنا پڑتا ہے‘، یہ الفاظ تقریباً 2400 سال قبل لکھے گئے ایک مشہور تاریخی کتاب کی ہے جو بین الاقوامی رشتوں کے اصول کی بنیاد ہے۔ یہ آج بھی سچ اور بامعنی ہے، بھلے ہی آج ہمارے نظام میں اقوام متحدہ او اس کی سیکورٹی کنسل سمیت لاتعداد ادارے موجود ہیں۔ مثلاً ’ایک بین الاقوامی نظام ہے‘، یہ فلسطینیوں یا لبنان کے لوگوں کو اس وقت بتانے کی کوشش کی جائے جب ان کے بچوں کو یکطرفہ جنگ میں قتل کیا جا رہا ہے۔ ایسے ہی کچھ یوکرین، ایران، کیوبا، ویتنام اور افغانستان کے لوگوں کے ساتھ ہے۔
Published: undefined
اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے یہ فطری ہے کہ جب بین الاقوامی امور کی بات آتی ہے تو حکومتیں یا ریاست صرف یا عام طور پر اپنے مفاد کو ہی پہلے دیکھتے ہیں۔ چلن کچھ ایسا ہی ہے اور یہ سمجھ میں بھی آتا ہے۔
ہندوستان پر الزام ہے کہ وہ ایسے ممالک میں کچھ اشخاص پر حملے کرا کر نظام کی خلاف ورزی کر رہا ہے، جن کے ساتھ اس کے رشتے دوستانہ مانے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہندوستان کو لگتا ہے کہ اس کی سرحدوں کے پار سے کوئی خطرہ پیدا ہو رہا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ وہ کوئی کارروائی کرنے میں اہل ہے تو وہ کارروائی کرے گا۔ یہ بھی سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ کئی سوال اٹھ رہے ہیں، لیکن آئیے ایک خاص معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آخر خطرے کی شکل کیا تھی جس پر کارروائی کرنے کا ہمارے اوپر الزام لگ رہا ہے اور اب وہ خطرہ کتنا سنگین ہے۔
Published: undefined
ایسی کارروائیوں میں ہوئی اموات کے اعداد و شمار سے کچھ معنی خیز چیزیں سامنے آئیں گی۔ جنوبی ایشیا ٹیررزم پورٹل کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تشدد کی شروعات 1984 میں 456 لوگوں کی موت کے ساتھ ہوئی تھی۔ یہ زمانہ یقینی طور سے آپریشن بلو اسٹار اور ایک وزیر اعظم کے قتل والا تھا۔ اموات کی تعداد تین دہائی پہلے یعنی 1991 میں بہت زیادہ بتائی گئی تھی۔ 5000 سے زائد لوگوں کی موت واقع ہوئی تھی۔ اگلے سال اس میں کمی تو آئی لیکن پھر بھی تعداد تقریباً 4000 رہی۔ اس کے بعد اس میں گراوٹ درج ہوئی۔
Published: undefined
1998 سے 2014 یعنی 12 سال کے دوران اموات کی تعداد نہ کے برابر رہی۔ کئی مرتبہ تو یہ صفر ہی رہی۔ گزشتہ 6 سالوں کے دوران بھی تعداد ایک ہندسہ سے اوپر نہیں گیا اور کسی بھی سیکورٹی فورس کے جوان یا افسر کی موت نہیں ہوئی۔ اگر حکومت اور سیکورٹی نظام کو پھر بھی لگتا ہے کہ قومی سیکورٹی کو اب بھی ایسا خطرہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے اسے ایسی کارروائی کرنی چاہیے، جس کے اس پر الزا لگ رہے ہیں، تو اس سوچ کے پیچھے وجہ کچھ اور ہے۔ کسی کی کہی گئی بات کو ناپسند کرنے اور اس سے قومی سیکورٹی کو خطرہ محسوس کرنے میں فرق ہے۔ پھر ہمیں اپنی حکومت کے ذریعہ اپنی قومی سیکورٹی کے لیے خطرات کے بارے میں کہی گئی باتیں کہاں مل سکتی ہیں؟ جواب ہے- کہیں نہیں۔
Published: undefined
جنوری 2021 میں ایک تھنک ٹینک نے ایک ریٹائرڈ جنرل کے ذریعہ لکھا ایک پیپر جاری کیا۔ انھوں نے لکھا تھا کہ فوج میں کی گئی تبدیلیوں نے ایک شاندار فوجی افسر (تب جنرل بپن راوت تھے) کو اپنی حکمت عملی اور فوجی سمجھداری دکھانے کا موقع دیا۔ لیکن رپورٹ میں بدقسمتی سے نتیجہ نکلا ہے کہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف ابھی تک دفاعی حکمت عملی تیار نہیں کر سکے ہیں۔
Published: undefined
اس کی ایک وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ حکومت ابھی تک طے نہیں کر پائی ہے کہ آخر مسئلہ کی صورت کیا ہے۔ 6 سال قبل 2018 میں ڈیفنس پلاننگ کمیٹی بنائی گئی تھی۔ اس کی صدارت قومی سیکورٹی مشیر اجیت ڈبوال کے ذمہ تھی اور اس میں خارجہ و دفاعی سکریٹری کے علاوہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف، تینوں فوجی سربراہ اور وزارت مالیات کے سکریٹری شامل تھے۔ منوہر پاریکر انسٹی ٹیوٹ آف ڈیفنس اسٹڈیز اینڈ اینالیسس کے ذریعہ تیار ایک مضمون کے مطابق اس کمیٹی کے پاس قومی ڈیفنس و سیکورٹی ترجیحات، خارجہ پالیسی کی لازمیت، آپریشنل ڈائریکٹیو اور ان سے منسلک ضروریات، اہم حکمت عملی و سیکورٹی سے متعلق اصولوں، دفاعی حصول و انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ منصوبوں، قومی سیکورٹی پالیسی، حکمت عملی دفاعی تجزیہ و اصولوں، بین الاقوامی دفاعی انسلاک حکمت عملی وغیرہ پر نظر رکھنے جیسے بہت اہم اور بڑے کام تھے۔ اس کمیٹی کی 3 مئی 2018 کو ایک میٹنگ ہوئی تھی، لیکن شاید اس کے بعد کبھی اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔ ایک ایسی حکومت کے دور میں جو قومی سیکورٹی کو ترجیح دیتے ہوئے بالاتر رکھتی ہے، یا کم از کم ایسا کہتی ہے، کمیٹی کی میٹنگ نہ ہونا حیرت انگیز ہے۔
Published: undefined
اخبارات میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق اس سال مئی میں اس بارے میں لکھا گیا، جس کی سرخی تھی ’تحریری قومی سیکورٹی حکمت عملی نہ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کے پاس ایسی حکمت عملی نہیں ہے: سی ڈی ایس‘۔
سابق جنرل پرکاش مینن نے نشان زد کیا ہے کہ کئی دہائیوں تک ہندوستانی فوج کے لیے سیاسی رہنمائی پاکستان کو فوری خطرات کی شکل میں دیکھتا رہا ہے۔ لیکن اب جبکہ چین کا خطرہ بالکل دروازے پر ہے، اس پالیسی اور حکمت عملی کو بدلنا ہوگا۔ فوج کے ذریعہ حاصل کیے جانے والے ممکنہ سیاسی مقصد ’وزیر دفاع کے آپریشنل ڈائریکٹیو‘ نامی ایک دستاویز میں موجود تھے، جسے 2009 میں اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انٹونی نے لکھا تھا۔ اس میں صرف اتنا کہا گیا ہے کہ مسلح فوج کو ’دونوں محاذ پر ایک ساتھ 30 دن (گھمسان) اور 60 دن (عام حالت) کی شرح سے جنگ لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔ اس میں گولہ بارود اور اضافی سیکورٹی اشیا کا تذکرہ ہے، لیکن حقیقت میں یہ کوئی اصول نہیں ہے۔
Published: undefined
جنرل مینن کہتے ہیں کہ یہ ہدایت بھی ’بہتر قومی سیکورٹی حکمت عملی کی کمی کے سب اب بھی ادھوری ہے۔ قومی سیکورٹی مشیر کی صدارت والی ڈیفنس پلاننگ کمیٹی کو 2 سال قبل یہ کام سونپا گیا تھا۔ ابھی تک کچھ بھی سامنے نہیں آیا ہے‘۔ یہ بالکل ویسی حالت ہے جو ایسے پیچیدہ کاموں کے ساتھ ہوتی ہے جنھیں اعلیٰ سطح سے کنٹرول اور آپریٹ کیا جاتا ہے، لیکن تفصیل میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔
ایک دیرینہ سپرپاور کی قومی سیکورٹی اسٹریٹجی غیر تحریری ہے، یعنی ہے ہی نہیں، کیونکہ اس میں جو کام ہے اس کے دانشمندانہ پہلوؤں کے تئیں کوئی ذمہ داری یا جوابدہی نہیں ہوتی، اس کا استعمال بہت کم ہوتا ہے، مشکل لیکن اباؤ کاموں کے تئیں بہت کم جوش ہوتا ہے، اور بے معنی و صرف نمائش پر بہت زیادہ توجہ اور زور دیا جاتا ہے۔
Published: undefined
ایک ہی ایشو پر امریکہ اور کناڈا کے تئیں ہمارے برعکس بیانات ظاہر ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ بین الاقوامی نظام کی فطرت ہے اور مضبوط وہی کرتے ہیں جو وہ کر سکتے ہیں، اور کمزور لوگ وہی سہتے ہیں جو انھیں سہنا پڑتا ہے۔ حالانکہ جس بات پر روشنی ضرور ڈالی جانی چاہیے، وہ ہے دلیل کا معاملہ۔ کیا ہم نے مسئلہ کے حل پر کارروائی کرنے سے پہلے اپنے قومی سیکورٹی مسائل کی فطرت کے بارے میں سوچا ہے؟ اس کا جواب ہے ’نہیں‘۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined