ہندوستان کے سپریم کورٹ کے سامنے گزشتہ دنوں ٹھیک ویسی ہی کشمکش پیدا ہو گئی تھی جیسی 1917 میں چمپارن کے برٹش ضلع جج کے سامنے مہاتما گاندھی کے مقدمہ کے سلسلہ میں پیدا ہو گئی تھی، برٹش جج چاہتا تھا کہ مہاتما گاندھی کسی طرح ان کی بات مان لیں اور چمپارن چھوڑ کر چلے جائیں، مہاتما گاندھی بضد تھے کہ نہ تو وہ چمپارن چھوڑیں گے نہ عدالت میں اپنی ضمانت پیش کریں گے، نہ عدالت سے کسی قسم کی رحم کی درخواست کریں گے، آخر کار برٹش جج کو ہی مہاتما گاندھی کو بلا شرط رہا کرنا پڑا تھا۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
توہین عدالت کے معاملہ میں ملک کے ممتاز ترین وکیل اور حققوق انسانی کے کارکن پرشانت بھوشن کے مقدمہ میں بھی سپریم کورٹ ایسی ہی کشمکش میں مبتلا ہے۔ بزعم خود اس نے ان پر ان کے ایک ٹوئٹ کو لے کر توہین عدالت کا کیس درج کر لیا اور تین رکنی بنچ نے انھیں مجرم گردانتے ہوئے سزا سنانے کا بھی فیصلہ کرلیا، لیکن جب سزا سنانے کا موقعہ آیا تو بغلیں جھانکنے لگی۔ وہ بار بار پرشانت بھوشن پر زور ڈال رہی تھی کہ وہ عدالت کے سامنے اپنے ٹوئٹ پر معذرت کر لیں، لیکن پرشانت بھوشن نے ایسا کچھ بھی کرنے سے انکار کر دیا۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
بری طرح گھری بنچ نے عدالت کو اپنے موقف پر پھر غور کرنے کے لئے انھیں خود اپنی طرف سے بلا مانگے مزید وقت دے دیا اور اب پرشانت بھوشن نے پھر عدالت کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میں نے معافی مانگ لی تو یہ میرے ضمیر کی توہین ہوگی۔ دو صفحات پر مشتمل اپنے بیان میں پرشانت بھوشن نے کہا ہے کہ معافی نامہ پوری ایمانداری والا ہونا چاہیے، جبکہ میں نے نیک نیتی سے بیان دیا تھا میرے ٹوئٹ کو مثبت تنقید کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اس کا مقصد کسی چیف جسٹس کے قد کو کم کرنا نہیں تھا۔ کورٹ کے میرے ٹوئٹ کو اور میرے مافی الضمیر کو نہیں سمجھا اس عدالت کے 20 اگست کے فیصلہ پر میں حیرت زدہ اور افسردہ ہوں۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
در اصل گزشتہ کچھ برسوں سے جب سے مودی جی برسر اقتدار آئے ہیں تمام جمہوری اور آئینی اداروں کے کام کاج میں شرمناک انحتاط دیکھنے کو مل رہا ہے، کوئی ایسا ادارہ نہیں بچا ہے جو اپنے مقصد اور فرض منصبی کو لے کر حساس ہو، ہر جگہ مودی جی نے سنگھ پریوار کے پروردہ یا پھر اس کے نظریات سے متاثر افراد کو بٹھا کر اس مقصد کو قتل کر دیا ہے، جس مقصد کے تحت یہ آئینی ادارہ قائم کیے گئے تھے۔ ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ لوک سبھا یا اسمبلیوں میں اپنی اکثریت اور نفری قوت کے بل پر کوئی حکومت آمرانہ طرز عمل نہ اختیار کر سکے اور آئین ہند کے محض الفاظ ہی نہیں بلکہ اس کی روح کے مطابق بھی کام کرے۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
لیکن چاہے الیکشن کمیشن ہو یا حقوق انسانی کمیشن یا دیگر ادارہ جیسے کمپٹرولر اور آڈیٹر جنرل سی بی ای ڈی سب کے سب سرکار کی ہاں میں ہاں ملانے والے ادارہ بن گئے ہیں لیکن سب سے شرمناک انحتاط ہماری میڈیا اور عدلیہ میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جمہوریت کے ان ڈان ستونوں کو جمہوریت کا محافظ یا واچ ڈاگ کہا جاتا ہے لیکن آج جو کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے اس سے ہر حساس جمہوریت نواز شخص کا فکر مند ہونا لازمی ہے اور پرشانت بھوشن کا ٹوئٹ ان کا بیان اور ان کا انداز اسی فکرمندی کا آئینہ اور ملک کے لاکھوں کروڑوں لوگوں کے دل کی آواز ہے۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
عدالت خاص کر سپریم کورٹ کی سب سے اہم ذمہ داری انصاف کرنا، مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دینا تو ہے ہی لیکن وہ ہمارے آئینی نظام کا محافظ بھی ہے، وہ عوام اپنی جمہوری حقوق کا محافظ بھی ہے، لیکن گزشتہ چند برسوں سے وہ اپنا فرض منصبی ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اس کے فیصلوں سے حکومت کو راحت اور اور اپنی من مانی کرنے کی چھوٹ تو ملی ہے لیکن عوام کے حققو ق اور خود سپریم کورٹ کی ساخ متاثر ہوئی ہے۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
سابق چیف جسٹس گگوئی کی قیادت میں چاہے رافیل جنگی جہازوں کے سودے کا معاملہ ہو، چاہے سی بی آئی کے سابق سربراہ رنجیت سنگھ کے معاملہ میں ان کا فیصلہ رہا ہو، یا بابری مسجد سے متعلق فیصلہ، ان کے تمام فیصلہ بادی النظر میں انصاف کے تقاضوں پر کھرے نہیں اترتے اور خود سپریم کورٹ کے ہی کئی سبکدوش ججوں نے ان فیصلوں پر اعتراض کیا ہے جن میں جسٹس لوکر، جسٹس کاٹجو، جسٹس بنرجی، جسٹس ساونت، جسٹس شاہ وغیرہ شامل ہیں۔ سبکدوش ہونے کے بعد ہی چیف جسٹس گگوئی کا حکومت کی جانب سے راجیہ سبھا کے لئے نامزد کیا جانا اس شک کو تقویت دیتا ہے انہوں نے لالچ اور دباؤ میں آکر یہ فیصلے کیے تھے حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بنچ میں دیگر جج صاحبان بھی شامل تھے۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
اس معاملہ میں موجودہ چیف جسٹس بوبڈے کا دور تو اور بھی سوالات کے گھیرے میں ہے، حکومت نےشہری ترمیمی قانون بنایا، امید تو یہ کی جاتی تھی کہ آئین ہند کے محافظ صدر جمہوریہ اسی طرح ان بلوں کو منظوری دینے سے قبل کم سے کم کابینہ کو نظر ثانی کے لئے بھیج دیں گے، جیسے آنجہانی صدر جمہوریہ گیانی ذیل سنگھ نے پوسٹل بل کے سلسلہ میں کیا تھا، لیکن انہوں نے آنکھ بند کر کے ان غیر آئینی بلوں کو منظوری دے دی۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
گزشتہ دنوں موقر انگریزی روزنامہ انڈین ایکسپریس نے صفحہ اول پر اپنی ایک خبر میں بتایا تھا کہ کس طرح سپریم کورٹ نے ان صحافیوں کو راحت پہنچائی تھی جو حکومت کے منظور نظر ہیں، ان میں ارنب گوسوامی، امیش دیو گن خاص طور سے قابل ذکر ہیں جبکہ ونود دوا جیسے صحافیوں کو جن کے سامنے مذکورہ دونوں صحافی طفل مکتب ہیں کوئی راحت نہیں دی گئی۔ پولیس افسر سنجیو بھٹ، ڈاکٹر کفیل خان حقوق انسانی کے علمبردار آدیواسیوں اور سماج کے کمزور طبقوں کی آواز اٹھانے والے گوتم نولکھا، تیلگو شاعر ویر وراور جیسے نہ جانے کتنے لوگ حکومت کا عتاب جھیل رہے ہیں، ان کے معاملہ میں عدالتیں انصاف کا تقاضہ پورا کرنا تو درکنار، انصاف کا خون کر رہی ہیں۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی ادتیہ ناتھ خود اپنے اوپر درج سنگین دفعات کے مقدمہ واپس لے لیتے ہیں اور ہائی کورٹ اسے درست قرار دے دیتا ہے یعنی ملزم خود اپنا منصف ہو سکتا ہے، اس کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل ہوتی ہے اور وہاں تاریخ پر تاریخ دے کر یوگی جی کو کھلا موقعہ فراہم کیا جاتا ہے جبکہ اس کے خلاف عدالتی چارہ جوئی کرنے والے سینئر صحافی پرویز پرواز کو اجتماعی آبروریزی کے ایک معاملہ میں فطری انصاف کے تمام تقاضوں کو درکنار کرتے ہوئے سیشن عدالت سے عمر قید کی سزا سنا دی جاتی ہے۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
انگریزی کے متعدد اخباروں میں اور یو ٹیوب کے مختلف چینلوں میں عدلیہ کی اس روش سے جمہوریت کو درپیش خطرات اور نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی گئی، سپریم کورٹ کے فاضل جج صاحبان نے ان مضامین کو پڑھا ضرور ہوگا اگر اس پر بھی ان کا ضمیر بیدار نہیں ہوا تو پھر اس ملک میں جمہوریت، شخصی آزادی اور آئینی حقوق کا خدا ہی حافظ، پرشانت بھوشن اس اندھیرے میں امید کی شمع بن کر ابھرے ہیں۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Aug 2020, 8:11 AM IST