سیاسی

کیا دہلی حکومت برخاست ہو سکتی ہے ؟

جہاں تک برخاستگی کا سوال ہے تو وہ پوری طرح سیاسی فیصلہ ہوگا، لیکن جو صورتحال ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کی جو رپورٹ ہے وہ برخاستگی کا مشورہ دینے کے لئے کافی ہے‘‘۔ سابق چیف سکریٹری

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل

افسران اور منتخب حکومت کے مابین بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے کیجریوال حکومت پر برخاستگی کی تلوار لٹکتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ذرائع کے مطابق دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر انل بیجل نے مرکزی وزارت داخلہ کو اپنی رپورٹ بھیج دی ہے جس میں انہوں نے دہلی میں آئینی بحران کا ذکر کیا ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں چیف سکریٹری کے ساتھ ارکان اسمبلی کی بد سلوکی کا ذکر کیا ہے۔ نام نہ شائع کرنے کی شرط پر ایک سابق چیف سکریٹری کا کہنا ہے کہ ’’جہاں تک برخاستگی کا سوال ہے تو وہ پوری طرح سیاسی فیصلہ ہوگا لیکن جو صورتحال ہے اور لیفٹیننٹ گورنر کی جو رپورٹ ہے وہ برخاستگی کا مشورہ دینے کے لئے کافی ہے‘‘۔

افسران اس ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ جب تک وزیر اعلی چیف سکریٹری کے ساتھ ہوئی بدسلوکی کے لئے ان سے معافی نہیں مانگتے ،جب تک نہ تو وہ شام پانچ بجے کے بعد کسی میٹنگ میں شرکت کریں گے، نہ ہی کوئی زبانی حکم مانیں گے، رابطہ صرف تحریری ہو گا اور نہ ہی کسی بھی عآپ کارکن سے ملاقات کریں گے۔ ان کے اس رویہ سے دہلی حکوت کے کام کاج کو لے کر سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔

ایک سینئر افسر نے نام نہ شائع کرنے کی شرط پر کہا کہ ’’یہ وہ وقت ہے جب حکومت کو سخت موقف اختیار کرنا چاہئے، نہیں تو حکومت چلانا مشکل ہو جائے گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’افسر کے ساتھ بد سلوکی کا معاملہ دہلی جیسی ریاست میں پیش آیا ہے اگر اس معاملے میں سخت قدم نہیں اٹھایا گیا تو دیگر ریاست میں یہ پیغام جائے گا کہ افسران کے ساتھ کچھ بھی کیا جا سکتا ہے ، ایسی صورت حال میں حکومت چلانے میں دشواریاں پیدا ہوں گی‘‘۔

ادھر کانگریس کے سینئر رہنما کا کہنا ہے کہ ’’ بدعنوانی کے جس طرح کے معاملوں میں مودی حکومت گھری ہوئی ہے وہ کیجریوال حکومت کو برخاست کرکے، ان کو شہید کا درجہ دلا کر، ان کو پورے ملک کا قائد بناکر ، حزب اختلاف کے ووٹوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے تاکہ اس سے عام انتخابات میں بی جے پی کو فائدہ ہو سکے‘‘۔

اس ساری صورتحال پر ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ ’’ مجھے نہیں لگتا کہ مرکز ی حکومت دہلی حکومت کو برخاست کرے گی کیونکہ برخاستگی سے پارٹی کو شہادت کا درجہ مل جائے گا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت چاہے گی کہ حکومت کو کام کاج نہ کرنے دیا جائے اور اس کو اپنی موت مرنے دے دیا جائے ‘‘۔

اس وقت جبکہ سب کی نظریں مرکزی حکومت کی جانب ہیں ، لیکن ایک بڑا مسئلہ اور ہے اور وہ ہےدہلی کا بجٹ ۔ اگر افسران سے اسی طرح کے تعلقات بنے رہے تو حکومت کو اس کی تیاری میں پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔لیکن حکومت کے لوگوں کا کہنا ہے کہ بجٹ کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق دہلی کے سکریٹری خزانہ ایس این سہائے کے حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ، اس لئے بجٹ تیار کرنے میں کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔

واضح رہے پیر کی آدھی رات کو وزیر اعلی اروند کیجریوال نے اپنی سرکاری رہائش گاہ پر ایک میٹنگ طلب کی تھی جس میں دہلی کے چیف سکریٹری انشو پرکاش کو بھی بلایا تھا ۔ الزام ہے کہ اس میٹنگ کے دوران دو ارکان اسمبلی نے چیف سکریٹری کے ساتھ بد سلوکی کی ۔ اس کے بعد ان دونوں کو گرفتاری کے بعد ایک دن کے لئے جیل بھی بھیج دیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد دہلی حکومت کے تمام افسران نے کام کرنے سے انکار کر دیا ۔ ادھر کئی ریاستوں کے آئی اے ایس افسران کی تنظیموں نے دہلی کے چیف سکریٹری کے ساتھ حمایت کا علاان کیا ہے ۔

دوسری جانب افسران پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے دہلی کے وزیر عمران حسین اور ان کے سکریٹری ہمانشو اور عام آدمی پارٹی کے سینئر رہنما آشیش کھیتان کے ساتھ بد سلوکی کی ہے ۔

دہلی میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے جب افسران اور حکومت کے درمیان اختلافات اس طرح سے کھل کر سامنے آئے ہوں ، لیکن بدسلوکی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ سکریٹری انفارمیشن اور ڈائریکٹر جے دیو سارانگی نے نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا کے رویہ کے خلاف 15دسمبر 2017کو شکایت کی تھی کہ 28نومبر 2017کی ایک میٹنگ میں منیش نے ان کو یہ کہہ کر دھمکی دی تھی کہ ’’سارانگی تمہارا جینا حرام کر دونگا‘‘۔ یہ اس طرح کا اکیلا واقعہ نہیں ہے باوثوق ذرائع کے مطابق سابق چیف سکریٹری ایم ایم کٹی کے ساتھ بھی کئی مرتبہ بدتمیزی جیسے واقعات پیش آئے ہیں۔ ایسے ماحول میں دہلی میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

Published: 22 Feb 2018, 4:12 PM IST

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: 22 Feb 2018, 4:12 PM IST