میڈیا میں تبلیغی جماعت کی آڑ میں جو مسلم مخالف مہم شروع کی گئی تھی اس کے بھیانک اور سنگین نتائج برآمد ہونے شروع ہو گئے ہیں۔ ایسی خبریں مسلسل آرہی ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اسپتالوں میں اور دوسرے مقامات پر امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ مسلم مریضوں کو دیکھ کر ڈاکٹر اور نرس بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ علاقوں میں مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ بھی شروع ہو گیا ہے۔
Published: undefined
آئیے پہلے یہ دو واقعات ملاحظہ فرمائیں جو بنارس سے ہمارے دوست اور ایک سابق ہندی صحافی عتیق انصاری نے ارسال کیے ہیں:
بنارس کے مسلم اکثریتی علاقے مدن پورہ کی ایک حاملہ خاتون فوزیہ شاہین کو دردِ زہ اٹھا۔ اس کے اہل خانہ اسے بی ایچ یو اسپتال لے کر پہنچے۔ ایمرجنسی سے اسے گائنیک وارڈ میں بھیج دیا گیا۔ وہاں موجود اسٹاف نے اس سے دور سے ہی پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ اس نے جواب دیا جی مدن پورہ سے۔ اسٹاف نے فوراً کہا کہ بھاگو بھاگو یہاں سے تم لوگ کورونا لے کر چلے آئے ہو۔
Published: undefined
وہ درد سے چیختی اور تڑپتی رہی مگر اسے باہر کر دیا گیا۔ باہر آکر اسٹریچر پر اس نے ایک بچے کو جنم دیا۔ اس کے ساتھ آئی خاتون گڑگڑاتی رہی ارے کوئی مدد کرو۔ مگر کوئی سامنے نہیں آیا۔ قریب کھڑے ایک شخص نے بی ایچ یو ہی میں اپنے کسی شناسا ڈاکٹر کو فون کیا اور اسے سارا معاملہ بتایا تب جا کر نرسوں نے بچے کو ماں سے الگ کیا۔ کچھ دوائیں لکھ دیں لیکن بھرتی تب بھی نہیں کیا۔ ساتھ والی خاتون دوا لینے کاؤنٹر پر گئی وہاں کچھ دیر ہو گئی۔ اسی درمیان گارڈ نے آکر اسے ڈانٹا کہ تم لوگ ابھی تک گئے نہیں۔ چلو بھاگو یہاں سے۔ یہاں کورونا پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
دوسرا واقعہ بنارس ہی کے بجرڈیہا کا ہے۔ مکہ مکرمہ سے لوٹی ایک مقامی خاتون پازیٹو پائی گئی۔ وہ آئسولیشن میں ہے۔ اس کا پورا خاندان کوارنٹائن ہے۔ اس کی چچا زاد بہن حمنہ خاتون کو جو کہ نگیٹو ہے، دردِ زہ اٹھا۔ انتظامیہ نے ایمبولینس مہیا کرایا۔ اس کے اہل خانہ اسے لے کر دین دیال اسپتال پہنچے۔ پوری رات گزر گئی، صبح کہا گیا کہ کیس سزیرین ہے۔ یہاں اس کی سہولت نہیں ہے۔ اسے کبیر وچورا بھیج دیا گیا۔ دن بھر گزر گیا۔ پھر یہ کہہ کر کہ آئی سی یو کی سہولت نہیں ہے بی ایچ یو ریفر کر دیا گیا۔ اب تک تقریباً بیس گھنٹے بیت چکے تھے۔
Published: undefined
اس خاتون سے یہ کہا جاتا رہا کہ تمھاری کورونا جانچ کی رپورٹ جب تک نہیں مل جاتی ہم ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اس خاتون نے کہا کہ اسے بتایا گیا ہے کہ وہ نگیٹو ہے مگر رپورٹ نہیں دی جا رہی ہے۔ بہر حال اس کے اہل خانہ اسے کسی پرائیویٹ نرسنگ ہوم میں لے کر چلے گئے۔ عتیق انصاری کو خبر لگی تو انھوں نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو فون پر اس کی اطلاع دی۔ متعدد ذمہ داروں کو فون کرنے کے بعد اس کی رپورٹ ملی اور پھر رات میں اس کی نارمل ڈلیوری ہوئی۔
Published: undefined
انگریزی ویب سائٹ The Citizen پر راجیو کھنہ کی ایک بہت بڑی اسٹوری شائع ہوئی ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح پنجاب اور ہماچل پردیش کے مسلم گوجوروں کا اقتصادی بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ لوگ دودھ کا بزنس کرتے ہیں۔ لیکن تبلیغی جماعت کے واقعہ کے بعد ایک تو ان سے دودھ نہیں خریدا جا رہا ہے دوسرے ان پر حملے بھی ہو رہے ہیں۔ مجبور ہو کر بہت سے لوگوں نے اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے اور دوسری جگہ جا کر خانہ بدوشوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔
Published: undefined
پنجاب میں بہت سے مسلم گوجر خاندانوں نے دوسرے لوگوں کے ذریعے حملہ کیے جانے اور دوڑائے جانے کے بعد اپنا گھر بار چھوڑ دیا ہے۔ گاؤں کے ایک شخص سراج الدین کا کہنا ہے کہ ہم سے کہا جا رہا تھا کہ تم لوگ گاؤں خالی کر دو۔ ہم پر بیماری پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ ہم کو بتایا گیا ہے کہ ایسی کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ہیں جن میں لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ ہم سے رابط نہ رکھیں اور ہم سے دودھ نہ خریدیں۔ اب ہم سے دودھ لینے والا کوئی نہیں ہے۔ ہمیں مجبور ہو کر اپنا دودھ قریب کی نہر میں بہانا پڑ رہا ہے۔
Published: undefined
حاجی فقیر نے مذکورہ رپورٹر کو بتایا کہ پٹھان کوٹ اور گورداس پور میں بھی حالات بہت خراب ہیں۔ کچھ تاجر گوجروں سے 13 روپے کلو دودھ خرید کر اونچے داموں میں فروخت کر رہے ہیں۔ ہماچل پردیش کے چمبا میں مسلم گوجروں کا خاموش بائیکاٹ کر دیا گیا ہے۔ سنڈلا، سلونی اور بانی کھیت کے لوگوں نے بتایا کہ مسلم گوجروں سے کوئی بھی دودھ نہیں خرید رہا ہے۔
Published: undefined
پٹھان کوٹ اور گورداس پور کی انتظامیہ کی جانب سے وارننگ جاری کی گئی ہے کہ کوئی بھی نفرت انگیز مہم نہیں چلائے گا لیکن کوئی فرق نہیں پڑ رہا ہے۔ اگر کہیں بھی کچھ گڑ بڑ ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی جاتی ہے۔ چاروں طرف یہ پیغام پھیلایا جا رہا ہے کہ کورونا پھیلنے کے ذمہ دار مسلمان ہیں۔
Published: undefined
چمبا کے رہنے والے سماجی کارکن لال حسین کا کہنا ہے کہ گاؤں دیہات میں بہت گہری فرقہ وارانہ کھائی بنا دی گئی ہے۔ چونکہ مسلمانوں کا بائیکاٹ خاموشی سے کیا جا رہا ہے زبان سے کوئی کچھ نہیں کہہ رہا ہے اس لیے کوئی بھی شخص لا اینڈ آرڈر نافذ کرنے والی ایجنسیوں سے رابط نہیں کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر جو لوگ نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف کارروائی تو کی جا رہی ہے لیکن یہ مہم بڑی خاموشی سے چلائی جا رہی ہے۔ اس لیے صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آرہی ہے۔ جو لوگ گھر گھر راشن پہنچا رہے ہیں ان سے کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کے گھروں میں راشن نہ پہنچاؤ۔
Published: undefined
دہلی میں بعض علاقوں میں مسلم سبزی فروشوں کو ہندو علاقوں سے بھگایا جا رہا ہے اور ایسی ویڈیوز سرکولیٹ کی جا رہی ہیں جن میں ہندووں کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اپنے علاقے میں مسلمانوں کو نہ گھسنے دیں اور اگر کوئی سبزی فروش آئے تو پہلے اس کا آدھار کارڈ دیکھیں۔ اگر وہ مسلمان ہے تو اسے فوراً وہاں سے بھگا دیں۔ ایسے ہی ایک مسلم سبزی فروش کو بری طرح زد و کوب کیا گیا۔
Published: undefined
یہ سب کچھ اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ میڈیا میں تبلیغی جماعت کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی جا رہی ہے اور انھیں ہی کورونا وائرس کے پھیلنے کا ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے۔ حالانکہ ممبئی اور اتر پردیش کے بعض شہروں میں پولیس نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے پر کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے اور جمعیۃ علمائے ہند کی جانب سے غلط رپورٹنگ کرنے والے نیوز چینلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی گئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
Published: undefined
اس میں کوئی شک نہیں کہ تبلیغی جماعت کی جانب سے کچھ غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی آڑ میں تمام مسلمانوں کو معتوب کیا جائے اور ان کے خلاف ایک خطرناک مہم چلائی جائے۔ لیکن اس ملک کے میڈیا کو یہی خوراک راس آتی ہے۔ وہ اسی پر انحصار کرتا ہے۔ اسی لیے اس نے کورونا جیسی خطرناک وبائی بیماری کو بھی مسلمان بنا دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined