سن 1991 آج کے دن شام کو مرادآباد جانے کے لئے میں شاہدرہ اسٹیشن پہنچا۔ ٹرین کے انتظار میں ابھی پلیٹ فارم پر ٹہل ہی رہا تھا کہ کچھ لوگوں کو باتیں کرتے سنا کہ راجیو گاندھی کا قتل ہو گیا ہے۔ میں نے جب ان سے تصدیق کرنے کی کوشش کی تو وہ اس کا جواب دینے سے بچتے نظر آئے۔ تھوڑی دیر بعد میری تشویش میں مزید اضافہ ہوگیا، اس کی وجہ تھی کہ میں نے اندرا گاندھی قتل کے بعد دہلی کے حالات دیکھے تھے۔اسی تشویس میں اسٹیشن ماسٹر کے پاس گیا اور ان سے اس خبر کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ایسی کچھ خبر تو ہے پر ابھی تک تصدیق نہیں ہو پائی۔
وہ زمانہ موبائل اور واٹس اپ کا تو تھا نہیں اس لئے تصدیق کا دوسرا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ میں نے اس کے بعد کچھ نہیں سوچا اور ٹکٹ واپس کئے بغیر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ مجھے گھر پہنچنے کی اتنی زیادہ عجلت تھی کہ میں نے رکشا والے سے کچھ طے نہیں کیا اور جو اس نے مانگا میں نے مان لیا۔
گھر میں داخل ہوتے ہی والدہ کا سب سے پہلا سوال تھا کہ سب خیریت تو ہے۔ میں نے جب وجہ بتائی تو انہوں نے ایسے گلے لگایا جیسے میں موت کے منہ سے نکل کر آیا ہوں۔ میرے اور ان کے خوف کی وجہ دو تھیں، ایک تو یہ کہ اندرا گاندھی قتل کے بعد دہلی میں جووحشی پن کا ننگا ناچ ہوا تھا اور جس بے دردی اور بے رحمی سے لوگوں کو مارا گیا تھا اس کو ہم نے دیکھا تھا۔ خوف کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اگر مارنے والے کا نام مسلمان جیسا ہوا تو پھر مسلمانوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ ہوگا جو سکھوں کے ساتھ ہوا تھا۔
بہرحال والد صاحب نے والدہ سے کہا ک کچھ ضروری سامان ایک جگہ کر لو کیونکہ ہمیں فوراً سرور (میری پھپو یعنی والد صاحب کی بہن) کے گھر جانا ہے۔ میں نے کہا کہ کچھ دیر انتظار کرتے ہیں تو انہوں نے ہماری تجویز کو ٹھکرا دیا۔ ہم اپنی پھپو کے گھر چلے گئے جن کا مکان مسلم اکثریتی علاقے میں واقع تھا۔
راجیو گاندھی کے قتل کی تصدیق کے ساتھ یہ بھی تفصیلات منظر عام پر آ گئیں کہ قتل میں کون لوگ شامل تھے اور انہوں نے راجیو گاندھی کو مارنے کے لئے خود کو کیسے بم سے اڑا لیا۔ ریڈیو سے یہ تصدیق ہونے کے بعد کہ اس میں کسی مسلمان کا کوئی کردار نہیں ہے تھوڑا سکون محسوس ہوا۔ لیکن یہ سکون اب غصہ میں بدل چکا تھا کیونکہ لوگ اس وقت تک راجیوگاندھی کے بارے میں اخبار اور ریڈیو کی خبروں کے ذریعہ جو بھی سمجھ پائے تھے وہ یہ تھے کہ وہ جتنے شکل و صورت سے اچھے تھے اس کہیں زیادہ دل کے بھی اچھے تھے۔ اسی بات کو لے کرغصہ تھا کہ ایسے شخص کو آخرکیوں قتل کیا گیا۔
دھیرے دھیرے تفصیلات آنی شروع ہوئیں، سونیا، پرینکا اور راہل کو راجیو کی آخری رسومات ادا کرتے دیکھا۔ جسے دیکھ کر دکھ اور غصے میں شدید اضافہ ہوا۔ ذہن میں یہ سوال بار بار گردش کر رہا تھا کہ ایسے نیک شخص کو آخر کوئی کیوں مار سکتا ہے؟
Published: 21 May 2018, 9:41 AM IST
راجیو گاندھی ایک سچے انسان تھے وہ ملک کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے تھےاور اس صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے جہاں ہندوستان کی عزت ہو۔ اس کو حقیقت میں تبدیل کرنے کے لئے اس شخص نے جو کچھ اپنے تعلیمی دور میں یورپی ممالک میں اچھی چیزیں دیکھی تھیں ان سب چیزوں کو ہندوستان میں لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کی۔ اسی لئے آج جس ترقی یافتہ اور طاقت ور ہندوستان کی ہم بات کر تے ہیں اس کی بنیاد راجیو گاندھی نے رکھی تھی اور اگر وہ بنیاد اس وقت نہ رکھی گئی ہوتی تو آج ہمارا سینہ فخر سے چوڑا نہیں ہوتا۔
راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں جہاں ہندوستان نے دفاعی میدان میں حصولیابیاں حاصل کیں تو وہیں ہندوستان کو ڈیجٹل بنانے کا کریڈٹ بھی راجیو گاندھی کو جاتا ہے۔ ہندوستان کو کمپیوٹر میں طاقت ور بنانا انہیں کی دین ہے۔ کمپیوٹر کی اس وقت بڑی مخالفت ہوئی تھی لیکن راجیو گاندھی کو مستقبل صاف نظر آ رہا تھا۔ ان کے سامنے یہ تصویر صاف تھی کہ آنے والا دور کمپیوٹر کا ہی ہے۔ انہوں نے ووٹ دینے کی عمر 21 سے کم کر کے 18برس کی اور نوجوانوں کو جدید ہندوستان کی تعمیر کا حصہ دار بنایا، پنچایتی راج کے نفاذ سے جمہوریت کو بنیادی جڑوں تک پہنچایا، فیصلہ سازی میں خواتین، نوجوانوں، پچھڑے طبقوں کی حصہ داری کو یقینی بنایا گیا۔
راجیو گاندھی نے ہمیشہ ایک بات کہی ہے کہ کانگریس اپنے بنیادی اصولوں کو نہیں چھوڑ سکتی کیونکہ ان اصولوں کو چھوڑ کر زیادہ دیر تک آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سماج، سیاست اور معیشت میں جن فوائد کا ہم ذکر کرتے ہیں، ان کی شروعات راجیو گاندھی نے ہی کی تھی۔ غریبوں کی زندگی میں خوشحالی لانے کا قدم ان کی زندگی میں اٹھایا گیا۔
راجیو ایک ایسے سچے انسان تھے جس کا دل تمام برائیوں سے پاک تھا۔ انہوں نے اپنے عہدے، ملک اور رشتوں سے کبھی بھی بے ایمانی نہیں کی۔ اپنی بیوی سونیا سے بے پناہ محبت کرنے والے راجیو نے کبھی اپنی والدہ کا دل نہیں دکھا یا، اپنے بچوں کی طرف سے کبھی غافل نہیں ہوئے اوراپنی ذمہ داریوں کو پوری ایمانداری سے نبھایا۔
میں یہی کہوں گا...
وہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا
اس شور شرابے کی سیاست میں راجیو گاندھی جیسے دوراندیش اور خاموش طبعیت سیاست داں کی بہت ضرورت ہے۔
Published: 21 May 2018, 9:41 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 21 May 2018, 9:41 AM IST
تصویر: پریس ریلیز