چین کے اہم شہر دونگون میں ایک بڑے اسپتال کے ڈاکٹر 2 دسمبر کو الجھن میں مبتلا تھے، اس کی وجہ ایک ڈاکٹر کو کف اور تیز بخار کی شکایت کے بعد اسپتال میں داخل کرایا جانا تھا۔ جانچ میں معلوم ہوا کہ 51 سالہ ڈاکٹر کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہے اور اس کے سبب اسے نیمونیا ہو گیا۔ لیکن تشویش کا باعث یہ تھا کہ کورونا وائرس (کووڈ-19) کو پہلے کبھی انسانوں میں نہیں دیکھا گیا تھا۔ دونگوان کا یہ مریض اسپتال میں پہنچنے والا کووڈ-19 کا پہلا مریض تھا۔
Published: undefined
دسمبر کے آغاز تک چین میں اموات کی تعداد 9 ہو چکی تھی اور دنیا نے حیران ہونا شروع کر دیا تھا۔ خطرناک طریقہ سے اپنے پیر پسارتی اس وبا نے 31 دسمبر تک چین میں 213 لوگوں کی جان لے لی، جبکہ 9692 افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے تھے۔ ہندوستان میں تقریباً ایک مہینے بعد پہلا معاملہ درج کیا گیا۔ یہ مریض تریچور کیرالہ کا رہنے والا طالب علم تھا جو چین کی ووہان یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا اور چند روز قبل ہی ہندوستان لوٹا تھا۔ اس کے بعد صوبہ کے تقریباً 400 افراد کو نگرانی میں رکھا گیا اور کچھ دن بعد یہاں دو کیسز اور درج کیے گئے۔ یہ دو اور تین فروری کا ذکر ہے اور انفیکشن کی زد میں آنے والے تمام افراد ووہان یونیورسٹی کے ہی طالب علم تھے۔ تینوں مریضوں کو تنہائی میں رکھ کر علاج کیا گیا اور یہ سبھی صحتیاب ہو گئے۔
Published: undefined
اس سے قبل 30 جنوری کو عالمی ادارہ صحت کی جانب سے کورونا کے انفیکشن کو ایمرجنسی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے ایک دن بعد ہی اٹلی میں بھی کورونا وائرس کے سبب ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ چار فروری کو ہندوستان نے چینی شہریوں اور گزشتہ دو ہفتوں میں چین کا سفر کرنے والے غیرملکی شہریوں کے ویزے منسوخ کر دیئے۔
Published: undefined
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود ہندوستان میں فروری کے پہلے ہفتہ تک کورونا وائرس سے متعلق خبریں ترجیح کی حامل نظر نہیں آ رہی تھیں۔ اس وقت دہلی میں انتخابات تھے اور ساتھ ہی شاہین باغ سمیت ملک بھر میں سی اے اے مخالف مظاہرے چل رہے تھے۔ وزیر اعظم بذات خود دہلی انتخابات میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے تھے اور ’شاہین باغ کو سنجوگ نہیں پریوگ‘ بتا رہے تھے۔ بی جے پی رہنما انوراگ ٹھاکر ’دیش کے غداروں کو گولی مارو...‘ کے نعرے لگوا رہے تھے اور دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال ہنومان چالیسا پڑھ رہے تھے۔ چہار سو انہیں خبروں پر بحث ہو رہی تھی۔
Published: undefined
فروروی کے دوسرے ہفتہ (8 فروری) تک چین میں کورونا سے 722 افراد ہلاک ہو گئے اسی دن دہلی میں پولینگ ہوئی اور 11 فروری کو نتائج کا اعلان ہوا، جس میں عام آدمی پارٹی نے بھاری اکثریت سے جیت حاصل کی۔ یہ وہی دن تھا جب چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1000 کو عبور کر چکی تھی۔ ڈبلیو ایچ او انتباہ دے رہا تھا کہ کورونا وائرس کے چین سے باہر جانے کا مطلب دنیا پر بڑی آفت کا آنا ہے اور انسانیت کی بقا کے لئے اس وبا پر قابو پانا ہوگا۔
Published: undefined
ادھر، ہندوستانی حکومت کا کہنا تھا کہ فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ 13 فروری کو وزیر صحت ہرش وردھن کا بیان آیا کہ کورونا سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور ماسک اور دستانوں سے لے کر ادویات تک تمام اشیائے ضروریہ کا اسٹاک تیار ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستان خود تو تیار ہے ہی پڑوسی چین کو بھی وہ طبی ساز و سامان، آلات اور دیگر سامان بھیج رہا ہے۔
Published: undefined
فروری کا تیسرا ہفتہ آنے تک چین میں مرنے والوں کی تعداد 1800 سے پار پہنچ گئی لیکن اس کے ساتھ تین ہزار کلومیٹر سے بھی لمبی سرحد کا اشتراک کرنے والے ہندوستان میں کوئی خاص ہلچل نظر نہیں آئی۔ اب سبھی کی توجہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پہلے دورۂ ہندوستان پر مرکوز تھی اور بڑے پیمانے پر احمدآباد سے لے کر آگرہ اور دہلی تک زور شور سے تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
Published: undefined
فروری کا چوتھا ہفتہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دو روزہ دورہ ہندوستان اور اس دوران راجدھانی دہلی میں سی اے اے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تشدد کی نذر ہو گیا۔ ہندوستان نے امریکہ کے ساتھ 3 ارب ڈالر کے دفاعی سودے کیے۔ ادھر دہلی میں تشدد کی آگ بھڑکتی ہی چلی گئی جس میں 50 سے زیادہ افراد کی جان چلی گئی۔ مسلم مخالف اس تشدد پر دنیا بھر میں بحث ہوئی۔ اس وقت تک چین میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد تین ہزار کے آس پاس پہنچ گئی۔
Published: undefined
ابھی تک جو کچھ بھی ہوا تھا اس کی بنیاد پر کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہندوستان نے اس انتہائی اہم دور میں کچھ خاص نہیں کیا، جبکہ کورونا کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنے کا موقع تھا۔ فروری کا ماہ لاپرواہی میں گزر گیا۔ کئی لوگ اس بات کی حمایت میں دلیل دیتے ہوئے 24 فروری کو احمد آباد کے موٹیرا اسٹیڈیم میں منعقدہ ’نمستے ٹرمپ‘ تقریب کا ذکر کرتے ہیں۔ اس تقریب میں سوشل ڈسٹنسنگ کا مذاق اڑاتے ہوئے اس تقریب میں تقریباً ایک لاکھ افراد جمع ہوئے تھے۔
Published: undefined
بہرحال، مارچ ماہ کی شروعات ہوئی اور اب تک فروری میں کیرالہ میں درج ہوئے تین کیسز کے علاوہ ہندوستان میں کورونا کا کوئی نیا معاملہ منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ دو مارچ کو دو کیسز اور درج ہوئے، پہلا تلنگانہ میں اور دوسرا دہلی میں۔ دونوں ہی افراد غیرملکی سفر سے واپس لوٹے تھے۔ وزیر صحت ہرش وردھن نے پھر دہرایا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر کسی میں کورونا کی علامات ظاہر ہوں تو وہ فوری طور پر حکومت کی طرف سے قائم کی گئی ہیلپ لائن نمبر پر افسران سے رابطہ کریں۔ اگلے ہی دن وزیر اعظم نے بھی ملک کے باشندگان سے کہا کہ انہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔
Published: undefined
اب تک کورونا وائرس نے اٹلی اور ایران میں قہر برپانا شروع کر دیا تھا۔ پانچ مارچ کو ہندوستان میں بھی اس وبا کے معاملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا اور مریضوں کی کل تعداد 29 تک پہنچ گئی۔ اسی دن کانگریس رہنما راہل گاندھی نے حکومت کو ایک مرتبہ پھر آگاہ کیا۔ اپنے ٹوئٹ میں انہوں نے لکھا، ’’وزیر صحت کہہ رہے ہیں کہ کورونا بحران کے حوالہ سے حالات حکومت ہند کے قابو میں ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ٹائیٹینک کے کپتان مسافروں کو بتا رہے ہوں کہ گھبرائیں نہیں کیوںکہ یہ جہاز ڈوب نہیں سکتا۔ حکومت کو بحران سے نمٹنے کے لئے ایک حکمت عملی عوام کے سامنے رکھنی چاہیے جو موجودہ وسائل پر منحصر ہو۔‘‘
Published: undefined
راہل گاندھی 28 فروری کو دو ہفتوں کا اٹلی کا دورہ کر کے واپس لوٹے تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی تین بار اشاروں میں وزیر اعظم مودی کو کورونا وائرس اور اس کے سبب ہندوستانی معیشت پر آنے والے خطرے کے حوالہ سے انتباہ دے چکے تھے۔ تاہم خبروں میں ان سب باتوں سے زیادہ بحث پارلیمان میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان دہلی تشدد کو لے کر ہونے والی نوک جھونک پر تھی۔ اس کی وجہ سے پارلیمانی کارروائی بھی کئی دنون تک ٹھپ رہی۔ اسی اثنا میں سابق وزیر اعلیٰ منموہن سنگھ نے بھی آگاہ کیا کہ سماجی کشیدگی، معاشی مندی اور کورونا جیسی وبا ملک کو مشکل حالات میں لے جائے گا۔ اس کے ایک دن بعد وزیر اعظم مودی کا بیان آیا کہ الگ الگ وجوہات سے عالمی مشعیشت بحران کا شکار ہے لیکن ہندوستانی معیشیت کی بنیاد مضبوط ہے۔
Published: undefined
مارچ کا دوسرا ہفتہ مدھیہ پردیش کی کمل ناتھ حکومت پر آئے بحران کے ساتھ شروع ہوا۔ کانگریس کے رہنما جیوتیرادتیہ سندھیا اور ان کے حامیوں کے بی جے پی کا دامن تھام لینے کے نتیجہ میں کمل ناتھ حکومت گر گئی۔ یعنی جس وقت آنے والی وبا سے نمٹنے کے لئے جنگی پیمانے پر اقدام لئے جانے تھے اس وقت مدھیہ پریدش میں سیاسی اتھل پتھل چل رہی تھی۔ سوشل ڈسٹنسنگ کا خیال رکھے بغیر سیاسی اجلاس طلب کیے جاتے رہے۔ آخر کار کمل ناتھ سنگھ نے استعفی دے دیا اور شیوراج چوہان نے چوتھی مرتبہ وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھال لیا۔
Published: undefined
جس وقت مدھیہ پردیش میں سیاسی ڈرامہ چل رہا تھا اس وقت تک کورونا کا بحران کتنا بڑا ہو چکا تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم نے ’جنتا کرفیو‘ کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ دہلی، راجستھان اور مہاراشٹر جیسے کئی صوبوں میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ 24 مارچ کو مدھیہ پردیش کی شیو راج سنگھ حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا اور اسی شام کو وزیر اعظم نریندر مودی نے پورے ملک میں 21 روزہ لاک ڈاؤں کا اعلان کر دیا۔ اب تک مدھیہ پردیش میں تقریباً 10 ہزار کورونا کے کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے اور یہ کورنا وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ ریاستوں میں سے ایک ہے۔
(بشکریہ ستیہ گرہ ڈاٹ اسکرال ڈاٹ ان)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined