کہا جاتا ہے کہ حالیہ انتخابات سے قبل کانگریس ہائی کمان نے ایک آزاد ایجنسی کے ذریعے چاروں ریاستوں میں ایک سروے کروایا تھا۔ اس ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں کئی ایسے لوگوں کو امیدوار نہ بنانے کی شفارش کی تھی جن کے تئیں عوام میں ناراضگی تھی۔ پارٹی ہائی کمان اسی رپورٹ کی بنیاد پر انتخابی حکمت عملی ترتیب دینے کا ارادہ رکھتا تھا، لیکن پارٹی کے ریاستی سربراہان نے اس رپورٹ کو یکسر خارج کرتے ہوئے اپنی پسند کے امیدواروں کو ٹکٹ دیا اور پوری انتخابی کمان اپنے ہاتھ میں رکھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تلنگانہ کو چھوڑ کر تینوں ریاستوں میں کانگریس کے امیدوار بری طرح شکست سے دو چار ہو گئے۔
Published: undefined
سروے رپور ٹ کو خارج کرنے اور اپنی پسند کے قریبی لوگوں کو ٹکٹ دینے کے معاملے میں مدھیہ پردیش کانگریس کے سربراہ کمل ناتھ کا نام میڈیا میں خوب اچھلا تھا۔ انہوں نے اپنے چہیتے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے ساتھ ہی انڈیا اتحاد کے ساتھی اکھلیش سنگھ یادو کے خلاف بھی کچھ ایسی باتیں کہی تھیں جو دونوں پارٹیوں میں کثافت کی وجہ بن گئی تھیں۔ میڈیا میں تو یہ خبر بھی آئی تھی کہ ٹکٹوں کی تقسیم سے لے کر انڈیا اتحاد میں شامل پارٹیوں کے مطالبات نیز انتخابی حکمت عملی سے متعلق تمام فیصلے کمل ناتھ خود لے رہے تھے۔ کمل ناتھ کے اندر یہ خود اعتمادی پیدا ہو گئی تھی کہ ریاست کی سیاسی صورت حال کو وہ پارٹی ہائی کمان سے بہتر سمجھتے ہیں، لیکن جب انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ کمل ناتھ کی یہ خود اعتمادی دراصل ان کی خود فریبی تھی۔
Published: undefined
انتخابات کے دوران کمل ناتھ نے جو فیصلے کیے بہت ممکن ہے کہ وہ ان کے نزدیک مناسب رہے ہوں، لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر گئے کہ ہر دور اور ہر صورت حال کے تقاضے یکساں نہیں ہوا کرتے ہیں۔ ان کے سامنے بی جے پی کی مثال تھی جس نے ریاست میں حکومت مخالف ناراضگی کو دور کرنے کے لیے وہ تمام تجربات کیے جو وہ کر سکتی تھی۔ مثال کے طور پر جن وزراء یا ارکان اسمبلی سے عوام ناراض تھے اس نے ان کے ٹکٹ کاٹ دیے۔ اس نے مرکزی وزراء و ممبرانِ پارلیمنٹ تک کو میدان میں اتار دیا جسے اس کی کمزور پوزیشن سے تعبیر کیا گیا۔ لیکن ان تجربات کے ذریعے اس نے نہ صرف حکومت کے تئیں عوامی ناراضگی کو دور کرنے میں کامیابی حاصل کی بلکہ انتخابات سے قبل کانگریس کے حق میں ہموار ہوئی رائے عامہ کو بھی اپنے حق میں موڑ لیا۔
Published: undefined
کانگریس ہائی کمان کے ذریعے مدھیہ پردیش میں قیادت کی تبدیلی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پارٹی ہائی کمان نہ صرف یہ کہ زمینی صورت حال سے واقف تھا بلکہ وہ ریاستی اکائی کے ذریعے لیے جانے والے فیصلوں کو بھی بغور دیکھ رہا تھا۔ مدھیہ پردیش کی کمان کمل ناتھ کے ہاتھ سے لینے کے بعد یہ بات یقینی طور پر کہی جانے لگی ہے کہ راجستھان و چھتیس گڑھ میں بھی کچھ اہم اور بڑی تبدیلیاں کی جائیں گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یقین جانیے مدھیہ پردیش سے شروع ہونے والی قیادت کی یہ تبدیلی کانگریس کی دیگر اکائیوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔ اب ظاہر ہے کہ یہ تبدیلیاں راہل گاندھی کی ایماء پر ہی ہو رہی ہیں تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ پارٹی ہائی کمان نے تینوں ریاستوں کی کمان نئے و نوجوان لوگوں کے ہاتھوں میں دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
Published: undefined
مدھیہ پردیش کی مانند اگر چھتیس گڑھ و راجستھان میں بھی پارٹی کی قیادت نوجوان و نئے لوگوں کے ہاتھوں میں سونپ دی جاتی ہے تو اس پرویگنڈے کا دم ہی نکل جائے گا کہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں تینوں ریاستوں میں اب بی جے پی کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہوگا۔ ان تینوں ریاستوں کی کل پارلیمانی سیٹوں میں سے محض تین سیٹیں ایسی ہیں جو بی جے پی کے پاس نہیں ہیں۔ اپنی سابقہ کامیابی کو برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی کو ان تمام سیٹوں کو جیتنا ہوگا، جو موجودہ منظر نامے میں تقریباً ناممکن سا لگ رہا ہے۔ اگر عام انتخابات میں ان ریاستوں میں کانگریس اپنی نصف طاقت ہی لگا دے تو یقین جانیے بی جے پی کی سیٹوں کی تعداد بڑھنے کے بجائے کم ہی ہوگی، کیونکہ کانگریس کے پاس ہارنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
Published: undefined
پارٹی کی زمام کار نوجوانوں اور نئے ہاتھوں میں دینے کی یہ شروعات کانگریس پارٹی کی ایک نئی جست ثابت ہوگی جو عام انتخابات میں ایک نئی تاریخ رقم کیے بغیر نہیں رہے گی۔ بس شرط یہ ہے کہ اپنی جگہوں سے ہٹائے جانے والے یہ پرانے چہرے پنجاب کے کیپٹن صاحب کی طرح بی جے پی کے آلۂ کار نہ بن جائیں۔ کیونکہ بی جے پی اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی، لیکن سندھیا صاحب کا حشر دیکھنے کے بعد اس بات کا امکان کم ہے کہ کوئی اور اس کے دامِ فریب میں گرفتار ہوگا۔ سیاست میں تجربات کی اہمیت جوئے سے زیادہ نہیں ہوا کرتی ہے، لیکن اگر اس کے لیے کچھ ٹھوس زمینی حقائق موجود ہوں تو یہ ایک نئے باب کا پیش خیمہ بھی بن جاتا ہے۔ چاروں ریاستوں میں مجموعی طور پر کانگریس کو بی جے پی سے زائد ملنے والے ووٹ اس بات کا غماز ہیں کہ قیادت کی یہ تبدیلی کانگریس کی نئی اڑان بنے گی۔
(نوٹ: یہ مضمون نگار کی اپنی آراء ہے، اس سے ’قومی آواز‘ کا متفق ہونا ضروری نہیں)
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined