وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک ٹی وی چینل کو بروز اتوار ایک نیا انٹرویو دیا۔ فی الحال ہم اس موضوع پر بحث نہیں کریں گے کہ یہ ایک ایسا ٹی وی چینل تھا جو گلا پھاڑ کر نریندر مودی کی تعریفوں کے پل باندھ رہا ہے اور اپوزیشن سے ایک صحافی کی طرح نہیں بلکہ مرکزی حکومت یا بی جے پی ترجمان کی طرح سوال کرتا رہا ہے۔ ہم بات اس ایک سوال کی کریں گے جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ نریندر مودی کے نعرے محض جملے ہوا کرتے ہیں اور اس بات کا اعتراف انھوں نے خود کیا۔ اس مرتبہ ہم جس نعرے کی بات کر رہے ہیں وہ نعرہ تھا ’کانگریس مُکت بھارت‘۔ اب دلچسپ بات یہ ہے کہ انھوں نے ’کانگریس مُکت بھارت‘ نعرہ کے بارے میں ٹی وی چینل پر کیا کچھ کہا۔
دراصل انٹرویو کے دوران جب اینکر نے نریندر مودی سے پوچھا کہ آپ نے تو 2014 میں نعرہ دیا تھا کہ آپ ملک کو ’کانگریس مُکت‘ کر دیں گے (یہاں اینکر یہ کہتے کہتے خود کو روک گئیں کہ آپ کی ہی ریاست گجرات میں کانگریس کی واپسی ہو گئی اور آپ 100 سیٹوں سے بھی نیچے آ گئے)۔ اب کانگریس کی صرف چار ریاستوں میں حکومت ہے اور اس سال کئی ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں۔ کیا آپ کا یہ نعرہ ثابت ثابت ہو رہا ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی سوال کے پیچھے چھپی اصل بات سمجھ گئے۔ اس سوال کا جواب انھوں نے تقریباً 500 الفاظ میں دیا۔ انھوں نے کہا کہ ”اچھا ہوا کہ آپ نے یہ سوال پوچھ لیا۔ میرے نعرے بہت مشہور ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے پیچھے چھپے جذبات کوئی نہیں سمجھتا، کیونکہ سیاست میں بہت سی باتیں جلد بازی میں ہو جاتی ہیں۔ کانگریس اس ملک کی سیاست کا ستون رہی ہے اور اس کی ثقافت نے سبھی پارٹیوں کو متاثر کیا ہے۔ آج ہر کوئی کرتہ پہنتا ہے کیونکہ کانگریس کے زمانے میں ہر کوئی کرتہ پہنتا تھا۔“
یہاں ثقافت کرتے کی بات تک پہنچتے پہنچتے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وزیر اعظم ’کانگریس مُکت بھارت‘ کے اپنے نعرے کی تشریح کے لیے الفاظ تلاش کر رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ”جب میں کانگریس مُکت بھارت کی بات کہتا ہوں تو یہ کسی پارٹی یا صرف کانگریس کے لیے نہیں ہے۔ کانگریس کی ثقافت کے لیے ہے جو پورے ملک میں ہے۔ آزادی کے بعد کانگریس ہی سبھی سیاسی پارٹیوں کو متاثر کر رہی تھی۔ سبھی اس کے کلچر کو اختیار کر رہے تھے۔“ اتنا کہتے کہتے انھیں اچانک خیال آیا کہ انھیں تو کانگریس کی تنقید کرنی ہے، اس لیے فوراً کانگریس پر ذاتیات، نسل پرستی، بدعنوانی اور استحصال کے الزامات عائد کر دیے اور کہا کہ کانگریس کو اس سب سے آزاد ہونا چاہیے۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ سبھی سیاسی پارٹیوں میں یہ چیزیں موجود ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے اس بیان پر کانگریس لیڈر احمد پٹیل نے اپنارد عمل ٹوئٹر پر ظاہر کیا ہے۔ انھوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ”جو لوگ کانگریس کی صدیوں پرانی تاریخی ثقافت پر تبلیغ کر رہے ہیں انھیں پہلے بی جے پی کو ’تقسیم کرو اور راج کرو‘ کے کلچر سے، جمہوریت کا گلا گھونٹنے پر، آئینی اداروں کی بے عزتی سے، سینئر کی بے عزتی سے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے بنائے گئے جملوں سے آزاد کرنا چاہیے۔“
Published: undefined
تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے اس انٹرویو میں مودی نے یوں تو بہت سارے ایشوز پر باتیں کیں، لیکن سپریم کورٹ کے بحران پر انھوں نے خاموشی اختیار کر لی۔ انھوں نے کہا کہ ”حکومت اور سیاسی پارٹیوں کو اس سے دور رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک کی عدلیہ کا ایک بہت ہی باوقار ماضی رہا ہے، وہ بہت ہی اہل لوگ ہیں۔ وہ ایک ساتھ بیٹھیں گے اور اپنے مسائل کا حل نکالیں گے۔ ملک کے عدالتی نظام میں میرا اعتماد ہے، وہ ضرور ایک بہتر حل نکالیں گے۔“
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined