سیاسی

بی جے پی کی رکنیت سازی مہم میں جبر اور فریب... ستیندر ترپاٹھی

جب وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بی جے پی کے ’فعال رکن‘ بن رہے ہوں تو کسی کو بھی حیرانی ہوگی کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ کیا یہ لوگ اب تک بی جے پی کے رکن نہیں تھے؟

<div class="paragraphs"><p>بی جے پی / سوشل میڈیا</p></div>

بی جے پی / سوشل میڈیا

 

گزشتہ 19 ستمبر کو ’دی ہندو‘ کے سینئر صحافی مہیش لانگا نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ گجرات میں بی جے پی کی رکنیت سازی مہم کیسی کیسی بے ضابطگیوں سے بھری ہوئی تھی۔ بعد ازاں لانگا کو اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں مبینہ جی ایس ٹی گھوٹالہ سے جڑے ایک معاملہ میں حراست میں لے لیا گیا تھا۔ حالانکہ لانگا نے کہا کہ ان کا اس فرم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے جس میں ان کی بیوی سائلنٹ پارٹنر ہیں، لیکن پھر بھی انھیں 10 دنوں کے لیے پولیس حراست میں بھیج دیا گیا۔

Published: undefined

احمد آباد کے لانگا بی جے پی کی تلخ اور بے باک تنقید کے لیے مشہور ہیں۔ ان کے سب سے حالیہ انکشاف سے پتہ چلا کہ پارٹی لوگوں کو بغیر ان کی اجازت یا جانکاری کے رکن بنا رہی تھی۔ مثال کے لیے کملیش بھائی تھومر۔ گجرات کے جوناگڑھ باشندہ تھومر کو موتیابند کے آپریشن کے لیے راجکوٹ واقع داس جی بابو اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ رات 11 بجے ایک شخص نے انھیں جگا کر موبائل نمبر مانگا۔ وہی آدمی رنچھوڑ داس جی بابو پاستال میں داخل سبھی مریضوں کے پاس گیا اور سب سے نمبر مانگے۔ بیشتر نے موبائل نمبر دے بھی دیا۔ اس کے فوراً بعد ان سب کے موبائل پر ایک او ٹی پی آیا جس سے انھیں پتہ چلا کہ وہ بی جے پی کے رکن بننے والے ہیں۔ تھومر نے اس ’رکن سازی‘ کا دو منٹ پر مبنی ویڈیو ریکارڈ کیا اور سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا۔ اس دن بغیر کسی پیشگی جانکاری یا اجازت کے 250 سے زیادہ مریض راتوں رات بی جے پی کے رکن بن گئے تھے۔

Published: undefined

لانگا کی رپورٹ میں وس نگر کے ایک جوڑے کا بھی تذکرہ تھا جو اینٹی ریبیز ویکسین کے لیے سول اسپتال گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ بیوی کو ٹیکہ لگتا، ’نئے اصولوں‘ کا حوالہ دے کر ان سے ایک او ٹی پی شیئر کرنے کو کہا گیا۔ لیکن یہ کیا! او ٹی پی شیئر کرنے کے ساتھ ہی پرکاش بین دربار بی جے پی کی ابتدائی رکن بن گئی تھیں۔ ان کے شوہر نے اجازت کے بغیر خاموش طریقے سے بنائے گئے رکن معاملہ پر سوال اٹھاتے ہوئے اعتراض ظاہر کیا، لیکن ان کی بات اَن سنی کر دی گئی۔ اس کی ویڈیو بھی وائرل ہوئی۔

Published: undefined

لانگا کی رپورٹ میں عآپ رکن اسمبلی چیتر وساوا کے حوالے سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ سرکاری افسر منریگا مزدوروں کو بی جے پی رکنیت لینے کو کہہ رہے تھے۔ اس میں یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح سریندر نگر ضلع میں کماری ایم آر گارڈی اسکول کے پرنسپل مکیش نماوت نے ایک ٹیچر کو سبھی سرپرستوں کو پیغام بھیج کر ان کے موبائل فون طلبا کے ہاتھ اسکول منگوانے کو کہا تھا۔ وہ لوگ کچھ سمجھ پاتے اس سے قبل ہی سبھی بی جے پی رکن بن چکے تھے۔ نویں درجہ کے طلبا کے ایک گروپ کی ہاتھ میں ترنگا لیے بی جے پی میں شامل ہونے کی تصویریں بھی وائرل ہوئیں، جس کے بعد ضلع ایجوکیشن افسر نے اسکول کو ’وجہ بتاؤ نوٹس‘ جاری کیا۔

Published: undefined

تنازعہ پیدا ہونے پر اسکول نے دعویٰ کیا کہ طلبا سے موبائل یہ یقینی کرنے کے لیے منگائے گئے تھے کہ راشن کارڈ ان کے آدھار نمبر سے جڑے ہیں یا نہیں۔ پرنسپل مکیش نماوت نے اس سب کے لیے طلبا کو ہی قصوروار ٹھہرا ڈالا۔ حالانکہ ٹیچر چندریش پرجاپتی کی بات سے راز کھل گیا کہ ’وہ تو محض پرنسپل کی ہدایات پر عمل کر رہے تھے‘۔ اس کے بعد سے تو ایسی خبریں کئی دیگر ریاستوں سے بھی سامنے آ رہی ہیں۔

Published: undefined

رکنیت سازی مہم سیاسی پارٹیوں کے لیے عام بات ہے۔ لیکن جو بات بی جے پی کی ’فعال رکنیت‘ مہم کو مشتبہ بنا دیتی ہے، وہ ہے جبر اور فریب۔ جب وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ بی جے پی کے ’فعال رکن‘ بن رہے ہوں تو کسی کو بھی حیرانی ہوگی کہ آخر ہو کیا رہا ہے؟ کیا یہ لوگ اب تک بی جے پی کے رکن نہیں تھے؟ ان کے معاملے میں رکنیت کی ’تجدید‘ کا کیا مطلب ہے؟ اور پھر اس سب کے لیے فوٹو سیشن سے کیا سمجھا جائے؟

Published: undefined

بی جے پی کی اس رکنیت سازی مہم کی افرا تفری نے لوگوں کو شبہات کا موقع فراہم کر دیا۔ باہری ایجنسیوں، کمرشیل فرموں، سرکاری ملازمین کا استعمال، ریکارڈ تعداد میں رکن بنانے پر زور اور ایسی رپورٹ کہ رکن بننے کے لیے اچھی خاصی ادائیگی ہو رہی تھی، پہلی نظر میں سب کچھ مشتبہ بنا دیتا ہے۔ بتایا گیا کہ بھاؤ نگر میں ایک بی جے پی لیڈر نے کارکنان سے فی رکنیت، یعنی فی کس 500 روپے کے انعام کے ساتھ 100 نئے اراکین لانے کے لیے کہا تھا۔

Published: undefined

تو کیا یہ سب محض تعداد بڑھانے کے لیے ہے؟ یا آنے والی دولت کو عطیہ کی شکل میں پیش کرنے کے لیے منی لانڈرنگ کی کوئی نئی حکمت عملی؟ دراصل کوئی نہیں جانتا۔ کہا جا رہا ہے کہ رکنیت سازی مہم یکم ستمبر سے شروع ہو کر 15 اکتوبر کو ختم ہوا جس میں 8 کروڑ کے اعلانیہ ہدف کے مقابلے 125 فیصد کامیابی شرح کے ساتھ 10 کروڑ سے زیادہ نئے اراکین بنائے گئے ہیں۔

Published: undefined

لیکن ذرا ٹھہریں! کیا بی جے پی کے پاس پہلے سے ہی 12 کروڑ اراکین نہیں تھے؟ تازہ 10 کروڑ کے ساتھ اب مجموعی طور پر 22 کروڑ رکن ہو گئے ہیں جو ملک کے 96.9 کروڑ رجسٹرڈ ووٹرس کا 23 فیصد ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کے اعداد و شمار کے مطابق کہا جاتا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں 64.2 کروڑ لوگوں نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا تھا۔ مجموعی طور پر پڑے ووٹوں سے بی جے پی کو 37.4 فیصد ووٹ ملے۔ یعنی 23.6 کروڑ ووٹ، جو حالیہ رکنیت مہم سے پہلے پارٹی کے ذریعہ دعویٰ کیے گئے اراکین کی تعداد کا تقریباً دوگنا ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ مانا جائے کہ ستمبر 2024 میں ہر ایک بی جے پی رکن (یعنی وہ لوگ بھی جو تب تک بی جے پی رکن نامزد نہیں تھے) نے عام انتخاب میں بی جے پی کو ووٹ دیا؟

Published: undefined

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے 16 اکتوبر کو ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں کیے گئے دعوے کے طمابق صرف اتر پردیش میں ہی دو کروڑ نئے اراکین جوڑے گئے۔ ریاستی بی جے پی صدر بھوپیندر چودھری نے بھی ایک بیان میں کہا کہ ’’دو کروڑ سے زیادہ لوگ ابتدائی اراکین کے طور پر پہلے ہی پارٹی میں شامل ہو چکے ہیں... جس سے اتر پردیش ملک میں سب سے زیادہ اراکین بنانے والی ریاست ہو گیا ہے۔‘‘ یو پی بی جے پی رکنیت سازی مہم کمیٹی کے صدر گووند نارائن شکلا کا کہنا ہے کہ 2016 کی رکنیت سازی مہم کے بعد دستیاب اعداد و شمار کے مطابق تنہا اتر پردیش میں بی جے پی کے پاس 1.83 کروڑ اراکین تھے۔ اسی لیے اس سال ہدف بڑھا کر 2 کروڑ سے زیادہ کر دیا گیا۔ شکلا کے دعویٰ کے مطابق یوپی میں پارٹی کے ایک لاکھ فعال رکن ہیں۔

Published: undefined

اتر پردیش میں بی جے پی اراکین کی مجموعی تعداد اب 3.83 کروڑ ہے، جبکہ 2022 کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 3.80 کروڑ ووٹ (255 سیٹیں) ملے جس میں ووٹ شیئر مجموعی ووٹوں کا 41.29 فیصد تھا۔ اب اتنے واضح نمبر کے درمیان اعداد و شمار ہمیں کیا بتا رہے ہیں؟ یہی نہ کہ پارٹی کے 3 لاکھ موجودہ اراکین نے 2022 میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا۔

Published: undefined

بی جے پی لیڈران اپنی رکنیت سازی کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ طلبا اور اساتذہ کے علاوہ ریسٹورینٹس اور سبزی فروشوں سے بھی موبائل نمبر لیے گئے۔ مدھیہ پردیش کے سابق وزیر صحت اجئے بشنوئی نے انکشاف کیا کہ انھیں 15 اکتوبر کی صبح ایک ہی موبائل نمبر سے تین کال آئیں جس میں پوچھا گیا کہ کیا وہ اپنا کوٹہ پورا کرنے کے لیے کرایہ پر کسی ایجنسی کی خدمات لینا چاہیں گے۔ بی جے پی لیڈروں کی اخلاقیات میں ایسا زوال اور پارٹی میں اپنے جیسے پرانے لیڈران کی عدم حمایت پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے بشنوئی نے بھی اعتراف کیا کہ ’’یہ واضح ہے کہ کئی بی جے پی لیڈران اپنے اراکین کا بینک بنانے اور پارٹی میں اپنا قد بڑھانے کے لیے ایسی ایجنسیوں کی خدمات لے رہے ہیں۔‘‘

Published: undefined

بعد میں مدھیہ پردیش بی جے پی نے سی آئی ڈی کی بھوپال اور اندور شاخ میں شکایت درج کرائی اور اس واقعہ کو ’پارٹی کو بدنام کرنے کے لیے‘ کچھ شرارتی عناصر کی کرتوت بتاتے ہوئے الزامات کی جانچ کا مطالبہ کیا۔ اتفاق ہے کہ مدھیہ پردیش میں گزشتہ 20 سالوں سے زیادہ وقت سے بی جے پی ہی اقتدار میں ہے۔

Published: undefined

جورا سے کانگریس رکن اسمبلی پنکج اپادھیائے، ریاستی سکریٹری جسویر سنگھ اور سابق وزیر لاکھ گھنگھوریا نے بھی ایف آئی آر درج کرائی ہے کہ انھیں بی جے پی لیڈران سے اس رکنیت سازی کی تصدیق کرنے والے پیغام ملے ہیں جس کے لیے انھوں نے کبھی درخواست ہی نہیں کی تھی!

Published: undefined

اتر پردیش کے کئی بی جے پی لیڈران ذاتی طور پر بات چیت میں رکنیت مہم کو نمائش بتاتے ہیں۔ ایک سینئر لیڈر نے دعویٰ کیا کہ ’’نئے اراکین میں سے نصف وہی ہیں جو 2016 کی مہم میں شامل تھے، حالانکہ ان کے پاس نیا موبائل نمبر تھا۔‘‘ ایک دیگر لیڈر نے دعویٰ کیا کہ پارٹی کے عہدوں کے لیے قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’’عہدوں کے سلسلہ میں عہدہ کے قد کی بنیاد پر آپ کو کچھ ہزار سے لے کر کچھ لاکھ روپے تک ادا کرنے ہوں گے۔ مثال کے لیے ایک ضلع کسان مورچہ عہدیدار کو کچھ ہزار روپے، جبکہ ضلع ایجوکیشن یا ریاستی سطح کے عہدیدار کے لیے کم از کم کئی لاکھ روپے خرچ کرنے ہوں گے۔‘‘

Published: undefined

پارٹی کے اندر کچھ لوگ اس بات کو لے کر فکرمند ہیں کہ یہ مہم پارٹی کو اندر سے کمزور کر رہا ہے۔ باقی لوگ اس کی مذمت کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’اب تنظیمی ڈھانچے کی ضرورت ہی کسے ہے جب ملک کے بیشتر حصوں میں لوگ محض ایک شخص کے نام پر ووٹ دے رہے ہیں اور انتخاب کے دوران بوتھ سطحی تنظیم کا دھیان رکھنے کا ذمہ ہمارے ساتھی اداروں نے اٹھا لیا ہو؟‘‘

Published: undefined