سیاسی

جموں و کشمیر اسمبلی انتخاب میں نسلی اور مذہبی تقسیم صاف دکھائی دے گی... انورادھا بھسین

جموں و کشمیر میں 10 سال بعد اسمبلی انتخاب ہونے جا رہا ہے اور اس دوران اس کے سیاسی منظرنامے و سیاسی نقشے میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے، ظاہر ہے اس کا انتخابی نتائج پر بھی بہت اثر پڑے گا۔

<div class="paragraphs"><p>کشمیر میں انتخابات کی فائل تصویر</p></div>

کشمیر میں انتخابات کی فائل تصویر

 

سوشل میڈیا

جموں و کشمیر میں مستقبل کا اسمبلی کیسا ہوگا، یہ تین عناصر پر منحصر ہے۔ (1) 2019 کا جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ،(2) 2022 کی حد بندی کمیشن کی رپورٹ، اور (3) 2023 کا جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) ایکٹ۔ اس کے علاوہ مزید ایک عنصر ہے پہاڑی لوگوں کو ایس ٹی (درج فہرست قبائل) کا درجہ دینا۔

Published: undefined

جموں و کشمیر میں 10 سال بعد اسمبلی انتخاب ہونے جا رہا ہے اور اس دوران اس کے سیاسی منظرنامے و انتخابی نقشے میں بڑی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ ظاہر ہے اس کا انتخابی نتائج پر بھی بہت اثر پڑے گا۔ اتحاد طے ہونے اور ایک خیمے سے دوسرے خیمے میں ہونے والی ’اچھل کود‘ تھمنے کے بعد ایکویشن یعنی ریاضی کچھ صاف ہونے کی امید کر سکتے ہیں۔ فی الحال جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے پر اثر ڈالنے والی قانونی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

Published: undefined

جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019

جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ نے پیش رو ریاست کو جموں و کشمیر (اسمبلی سمیت) اور لداخ (بغیر اسمبلی) کے مرکز کے زیر انتظام خطوں میں تقسیم کر دیا۔ 2019 کے ایکٹ کے ذریعہ 1950 کے ایکٹ کے دوسرے شیڈول میں ترمیم کر کے جموں و کشمیر اسمبلی میں سیٹوں کی مجموعی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کرنے کا انتظام کیا گیا۔

Published: undefined

پیش رو یعنی سابقہ جموں و کشمیر اسمبلی میں 111 سیٹیں تھیں۔ ان میں پاکستان کے قبضے والے کشمیر (گلگت بلتستان سمیت) کے لیے محفوظ 24 سیٹیں اور لداخ کی 4 سیٹیں شامل تھیں۔ اثرانداز طریقے سے اسمبلی میں 87 منتخب اراکین اور 2 نامزد خواتین تھیں۔ لداخ کی قانون ساز نشستوں کو ختم کرنے سے یہ تعداد گھٹ کر 107 (24+83) رہ گئی۔ اس طرح مستقبل کے اسمبلی میں 90 منتخب اراکین ہوں گے جن میں لداخ کی کوئی نمائندگی نہیں ہوگی۔

Published: undefined

مارچ 2020 میں جموں و کشمیر حد بندی کمیشن کی تشکیل سے قبل ہی جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ کے تحت طے ہو گیا تھا کہ نئے جموں و کشمیر میں سیٹوں کی تعداد 7 بڑھ جائے گی۔ 2022 کی رپورٹ میں حد بندی کمیشن نے 5 پارلیمانی حلقوں اور 90 اسمبلی نشستوں کی سرحدوں کا از سر نو تقسیم کیا۔ پینل نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ جموں علاقہ کو 6 نئی نشستیں اور کشمیر وادی کو ایک نشست ملے گی۔ سیٹوں کی تعداد بڑھانے اور اسے کشمیر کے دو حلقوں کے درمیان غیر مساوی طور سے تقسیم کرنے کا فیصلہ حد بندی عمل سے پہلے ہی ہو گیا تھا۔ اسی دوران اس کے پیمانے بھی طے کر دیے گئے تھے اور سب سے اہم پیمانہ تھا آبادی۔ حالانکہ کمیشن ’آبادی‘ سے زیادہ ’رقبہ‘ پر غور کر رہا تھا۔ جموں کی آبادی 5350811 (2011 کی مردم شماری کے مطابق) اور رقبہ 26293 اسکوائر کلومیٹر ہے اس لیے بے شک جموں کی آبادی 43.6 فیصد اور کشمیر کی 56.3 فیصد ہے، پھر بھی کمیشن نے جموں کی سیٹوں کی تعداد 37 سے بڑھا کر 43 اور کشمیر کی 46 سے بڑھا کر 47 کرنے کا فیصلہ کیا۔ کمیشن نے درج فہرست ذاتوں کے لیے 7 سیٹوں کی سفارش کی اور درج فہرست قبائل کے لیے 9۔

Published: undefined

جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) ایکٹ 2023

جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) ایکٹ 2023 نے حد بندی کمیشن کی سفارشات کی حمایت کی اور کہا کہ لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) کشمیری مہاجر طبقہ کے دو اراکین کو اسمبلی میں نامزد کر سکتے ہیں۔ نامزد اراکین میں سے ایک خاتون ہونی چاہیے۔ اس نے لیفٹیننٹ گورنر کو پاکستان کے قبضے والے جموں و کشمیر سے نقل مکانی کرنے والے اشخاص کی نمائندگی کرنے والے ایک رکن کو اسمبلی میں نامزد کرنے کا اختیار بھی دیا۔ یہ تین نامزد سیٹیں دو خاتون اراکین اسمبلی کو نامزد کرنے کی موجودہ سہولت کے علاوہ ہیں۔ جموں کشمیر اسمبلی کی طاقت 95 ہوگی جس میں 5 اضافی نامزد اراکین ہوں گے جنھیں ووٹ کا حق دیا جا سکتا ہے۔ اس سے قبل نامزد اراکین کو اسمبلی میں ووٹ کا حق نہیں تھا۔

Published: undefined

انتخابی حلقوں کی ریاضی

ان تینوں قوانین نے مل کر جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے کو کافی حد تک بدل دیا ہے جسے بی جے پی کے مفادات کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ہے۔

بی جے پی امید کر رہی ہے کہ ہندو اکثریتی جموں علاقہ میں 6 اضافی سیٹوں کا فائدہ اسے ملے گا اور اس کے ساتھ ہی اگر ضرورت ہوئی تو نامزد اراکین (اگر انھیں ووٹنگ کا حق دیا جاتا ہے) بھی اس کے لیے سود مند ثابت ہوں گے۔ جموں علاقہ کی 6 اضافی اسمبلی سیٹوں میں سے صرف ایک مسلم اکثریتی چناب وادی میں ہے۔ کشتواڑ، جموں و کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے اور اس کا رقبہ 7737 اسکوائر کلومیٹر ہے جو پورے مرکز کے زیر انتظام خطہ کا تقریباً پانچواں حصہ ہے۔ اس کی آبادی 231037 ہے۔ اسے موجودہ دو سیٹوں کے علاوہ مزید ایک سیٹ دی گئی ہے۔

Published: undefined

دسمبر 2021 میں پہلا حد بندی مسودہ جاری کرتے ہوئے کمیشن نے کہا تھا کہ اس میں سرحدی علاقوں میں رہنے کے لحاظ سے مشکل حالات کو بھی دھیان میں رکھا گیا ہے۔ سانبا اور کٹھوا جنھیں اضافی سیٹیں دی گئی ہیں، سرحد پر ہیں۔ حالانکہ یہ دلیل راجوری (62.7 فیصد مسلم) اور پونچھ (90.4 فیصد مسلم) ضلعوں میں نافذ نہیں کیا گیا ہے جو لائن آف کنٹرول پر ہیں۔ یہ سرحدی علاقے سانبا اور کٹھوا سے بھی زیادہ گولی باری کا سامنا کرتے ہیں۔

Published: undefined

زیادہ ہندو اکثریتی انتخابی حلقہ

تنظیم نو کے اس طریقے نے جموں کے مسلم اکثریتی پیر پنجال اور چناب وادی میں زیادہ ہندو اکثریتی انتخابی حلقے بنا دیے ہیں۔ جموں کے اودھم پور ضلع میں، جن میں 3 اسمبلی حلقے ہیں، کمیشن نے مزید ایک انتخابی حلقہ تجویز کیا ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سرحدوں کی یہ تنظیم نو بی جے پی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہے۔

Published: undefined

اس بات کے بھی اشارے مل رہے ہیں کہ کس طرح سے یہ تنظیم نو ہندو ووٹوں کو متحد کر سکتا ہے جس سے بی جے پی کے لیے ان علاقوں میں ممکنہ سبقت بن سکتی ہے جہاں پارٹی کے پاس کم ووٹرس ہیں۔ اس کی ایک مثال راجوری ضلع ہے جس میں 2014 تک 4 اسمبلی حلقے تھے- نوشیرا، کالاکوٹ، راجوری اور درہال۔ حد بندی کے بعد پانچواں علاقہ ہے ’تھانہ منڈی‘۔ نئی حد بندی کے بعد بھی نوشیرا ہندو اکثریتی انتخابی حلقہ بنا ہوا ہے۔ دیگر دو جنرل اسمبلی حلقوں میں ہندو ووٹرس کا اتحاد واضح ہے۔ کالاکوٹ کی آبادی 51 فیصد مسلم ہے جس میں سبھی مسلم پنچایتوں میں سے 8 میں درج فہرست قبائل ہیں۔ سندربنی تحصیل جہاں 86 فیصد ہندو ہیں، کو نوشیرا سے الگ کر کالاکوٹ سے جوڑ دیا گیا ہے جس سے یہ 64 فیصد ہندو اکثریتی ہو گیا ہے۔ راجوری انتخابی حلقہ میں 70 فیصد مسلم ہیں جبکہ راجوری شہر میں 57 فیصد ہندو ہیں۔ راجوری کی مسلم آبادی 4 مسلم اکثریتی ایڈمنسٹریٹو یونٹس- ڈونگی، فتح پور، سوہنا اور باگلا میں مرکوز ہے اور ان چار حلقوں کو راجوری سے ہٹا کر تھانہ منڈی انتخابی حلقہ سے جوڑ دیا گیا ہے تاکہ راجوری کے ہندوؤں کو انتخابی طور پر سبقت ہو۔

Published: undefined

پیر پنجال میں درج فہرست قبائل فیکٹر

انتخاب میں تیسرا اہم عنصر (خاص طور سے پیر پنجال بیلٹ میں) درج فہرست قبائل (ایس ٹی) سیٹیں ہیں۔ حد بندی کمیشن کی سفارشات کے مطابق جموں و کشمیر تنظیم نو (ترمیمی) ایکٹ 2023 نے 9 درج فہرست قبائل انتخابی حلقوں کی تصدیق کی جن میں سے 5 راجوری-پونچھ کے سرحدی ضلعوں میں ہیں۔ 9 درج فہرست قبائل انتخابی حلقے ہیں: راجوری، درہال، تھانہ منڈی (راجوری)، سرنکوٹ، مینڈھر (پونچھ)، ماہور (ریاسی)، کوکرناگ (اننت ناگ)، کنگن (گاندربل) اور گریز (باندی پورہ)۔

Published: undefined

راجوری-پونچھ میں 8 ریزرو درج فہرست قبائل سیٹوں میں سے 5 کے ساتھ پیر پنجال بیلٹ کا 60 فیصد حصہ اب ریزرو ہو گیا ہے۔ جبکہ درج فہرست قبائل درجہ بندی 4 دیگر ریزرو درج فہرست قبائل انتخابی حلقوں میں بڑا کردار نبھا سکتا ہے۔ پانچوں علاقوں میں پہاڑی لوگوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ دے دیا گیا ہے۔

Published: undefined

جب فروری 2024 میں پہاڑیوں کو قبائلی کا درجہ دیا گیا تو اس نے ان ضلعوں کے سیاسی منظرنامہ کو بدل دیا، جن کا سرحدی تصادم کے بیچ رہنے کی 70 سالہ تاریخ ہے۔ نظر انداز کیا جانا اور پسماندگی کے شکار راجوری و پونچھ بھی مذہب، ذات، نسل پرستی اور زبان کی بنیاد پر منقسم ہیں۔ راجوری اور پونچھ دونوں میں 36 فیصد آبادی روایتی طور سے مویشی پرور مسلم قبائلیوں گوجر اور بکروال سے ہے جو گوجری بولتے ہیں اور ان کی ثقافت الگ ہے۔ باقی آبادی پہاڑی بولتے ہیں جو ایک پنجابی بولی ہے۔ پونچھ ضلع میں 10 فیصد آبادی ہندو اور سکھ ہے جو بیشتر پونچھ اور دیگر شہروں میں بسے ہیں۔ راجوری اور پونچھ میں انتخابی سیاست سمیت سیاسی نریٹو گوجر-پہاڑی تقسیم کے ذریعہ تیار کیا گیا ہے۔ پہاڑیوں کو درج فہرست قبائل کا درجہ دینے سے نسلی/مذہبی تقسیم بڑھنے کا اندیشہ ہے جس سے انتخابی مقابلہ تلخ ہو جائے گا۔ اس علاقے میں مذہب اور ذات بڑا کردار نبھائیں گے اور انتخابی نتائج کافی حد تک امیدواروں کے سلیکشن پر انحصار کریں گے، جبکہ جموں و کشمیر کے انتخابی نقشے میں کی گئی تبدیلی واضح طور سے بی جے پی کو انتخابی فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔ لیکن ایسے تمام عناصر ہیں جو انتخاب میں پارٹی کی سبقت کو کم کر دیں گے۔ 2019 کے بعد مرکز کے رخ نے جموں علاقہ میں بھی ’دھوکہ‘ کا جذبہ گہرا کر دیا ہے جسے بی جے پی کا قلعہ مانا جاتا ہے۔

(یہ مضمون وسیع شکل میں سب سے پہلے ’کشمیر ٹائمز‘ میں شائع ہوا)

Published: undefined

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔

Published: undefined