کورونا کی وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے مختلف ممالک نے مختلف طریقۂ کار اور حکمتِ عملیاں روا کیں اور ان اقدامات کو عوام کی حمایت بھی حاصل رہی۔ تاہم، برطانیہ میں صورتِ حال اس سے بالکل مختلف رہی ہے۔ وہاں کے عوام اور سیاست داں دونوں ہی حکومت کے خلاف لام بند نظر آئے ہیں۔ مجموعی طور پر برطانوی شہریوں کو بہت زیادہ باشعور اور قوانین کا پابند مانا جاتا ہے لیکن موجودہ صورتِ حال میں ان کی یہ شبیہ بہت حد تک خراب ہوئی ہے۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
اس ہفتہ کے اوائل میں برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کوHouse of Commons میں اپنی ہی پارٹی کے ارکان سے بغاوت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی پارٹی کے بعض ارکان نے نئے سہ رخی کورونا سسٹم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیا جو برطانیہ میں 3 دسمبر سے قومی لاک ڈاؤن کی جگہ لینے والا تھا۔ تجاویز کو کنزر ویٹیو پارٹی میں ناراضگی کے باوجود توقعات کے مطابق منظوری مل گئی۔ لیبر پارٹی کے ارکان پارٹی کی ہدایت کے مطابق رائے دہی سے غیر حاضر رہے، جملہ 291 ارکان پارلیمنٹ نے نئے قواعد کے حق میں اور 78 نے خلاف میں ووٹ دیا۔ بر سر اقتدار پارٹی کے 55 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جوکہ عام انتخابات کے بعد سے بورس جانسن کے لئے ایک بڑی بغاوت تصور کی جا رہی ہے۔ اس سے قبل 10بجے کے کرفیو کی 44 ارکان نے مخالفت کی تھی۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
وہ مسئلہ جو بغاوت کا سبب بنا ہے وہ کنزر ویٹیو پارٹی کے بنیادی اصولوں یعنی کہ آزادی اور معیشت کی صحت کے لئے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ اصل لڑائی معیشت کے مسئلہ پر ہے جس کے تئیں لوگوں کو کرسمس کی شاپنگ اور کسی پابندی کے بغیر ان کو ریسٹورینٹس اور پبس میں پرسکون لمحات گزارنے کی اجازت دینا ہے۔ جانسن کے منصوبہ کے تحت 2 دسمبر کو قومی لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد بھی برطانیہ کا ایک بڑا حصہ ہنوز سخت قواعد کے تحت رکھا جائے گا۔ برطانیہ بھر میں لوگوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا یہی نہیں ان ریسٹورینٹس اور پبس کی مشکلات میں بھی اضافہ ہوگا جو پہلے سے لاک ڈاؤن اور سماجی اختلاط سے متعلق قواعد کے منفی اثرات برداشت کر رہے ہیں۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
زیادہ تر برطانوی شہریوں کا ماننا ہے کہ حکومت شاپنگ اور ہوٹلس میں جانے پر دوستوں اور رشتہ داروں سے ملاقات پر سخت پابندیاں عائد کرتے ہوئے ان کی آزادی کے حق کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ایک سینئر کنزرویٹیو ایم پی گراہم براڈی نے منگل کو House of Commons میں کہا کہ ’’آزادی اگر مکمل بھی نہ دی گئی تو کم سے کم اس کو قیمتی سمجھنا چاہیے۔‘‘انھوں نے کہا ’’اگر حکومت عوام کی بنیادی آزادی ہی چھین لے جن کی ہم نمائندگی کرتے ہیں، انھیں سوال سے بالاتر ہوکر مظاہرہ کرنا چاہیے کہ وہ یہ کام متناسب طریقہ سے ضرورت کے مطابق کر رہے ہیں‘‘۔ جانسن کی موجودگی میں انھوں نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ حکومت اس معاملہ میں معقول جواز پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
وزیر اعظم نے قبل ازیں اپنی پارٹی کے ارکان سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے جذبات پر قابو پائیں اور اس وقت تک پابندیوں کی تائید کریں جب تک ویکسین وسیع طور پر دستیاب نہیں ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا ’’ہم سب کو اس وقت ہمارے جذبات کو قابو میں رکھنے کی ضرورت ہے جب تک ویکسین ہمیں دستیاب نہیں ہوگی اور جب تک یہ ہماری رگوں میں دوڑنا شروع نہیں کر دیتی۔‘‘
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
ارکان پارلیمنٹ کا کہنا تھا کہ سہ رخی پابندیاں بہت سخت ہیں اوراس سے معیشت کے تباہ ہونے کا خطرہ ہے۔ انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ وہ علاقے جہاں متاثرین کی تعداد کم ہے وہاں سخت پابندیاں عائد کرنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ جہاں وائرس پھیل رہا ہے ان علاقوں میں کچھ پابندیاں نافذ کی جاسکتی ہیں۔ کوویڈ- 19 کے نئے قواعد پر کلیدی رائے دہی سے قبل پارلیمنٹ میں بحث کے دوران ارکان پارلیمان نے اس بات پر زور دیا کہ پابندیوں کا معیشت، تعلیم، ذہنی صحت پر مزید منفی اثر پڑے گا۔ بورس جانسن کے ایک ساتھی نے کہا وہاں وار کرنے کی ضرورت ہے جہاں اثر ہو۔ اس ہفتہ بحران کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
دلچسپ بات یہ ہے کہ رائے دہی پر اپوزیشن لیبر پارٹی میں متضاد رائے دیکھی گئی۔ لیبر کے 15 ارکان پارلیمنٹ نے جیرمی کوربن کی قیادت میں پارٹی وہپ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تجاویز کے خلاف ووٹ دیا۔ چند ارکان نے زیرو کووڈ حکمت عملی کی بنیاد پر اور دوسروں نے مالیاتی امداد کی کمی کی وجہ سے ووٹ دیا۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
لیبر پارٹی کے صدر کیر اسٹارمر نے بحث کے دوران اپنی تقریر میں کہا کہ وزیراعظم یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پابندیاں طویل مدت کے لئے نہیں ہوں گی جب کہ وہ جانتے ہیں کہ سخت پابندیوں کی ضرورت اس وقت تک ہے جب تک کہ ٹیکہ دستیاب نہیں ہوجاتا اور اس کے لئے کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔ لیبر لیڈر نے کہا ہم تسلیم کرتے ہیں کہ پابندیاں جاری رکھنے کی ضرورت ہے لیکن آج ان پابندیوں کے خلاف ووٹ دینا قوم کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم قواعد کو منظور نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پرائم منسٹر کو آخری چار ہفتے معاملات کو درست کرنے میں صرف کرنا چاہیے تھے اور ان لوگوں کی مدد کرنا چاہیے تھی جنہیں یکا و تنہا رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو ہمارے عظیم شہروں اور قصبوں کے لئے معاشی Packges تیار کرنا چاہیے تھے۔ ملازمتوں کا تحفظ کرنا چاہیے تھا۔ لوگوں کی آمدنی میں اضافہ کرتے ہوئے عوام کا اعتماد بحال کرنا چاہیے تھا۔ بجائے اس کے ہم دیکھ رہے ہیں کہ وزیراعظم اپنے ساتھیوں اور قومی مفادات کے درمیان پھنس گئے ہیں اور مجھے خدشہ ہے کہ یہ قواعد کام نہیں کریں گے۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
برطانوی عوام اور سیاست دانوں دونوں کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ دیگر ملکوں کے برخلاف برطانوی اپنی عام زندگی برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور انہیں کووڈ کے خطرہ سے زیادہ پریشانی نہیں ہے سوائے ان کے جو اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ برطانوی عوام ہندوستانیوں کے برخلاف پیسہ اور تفریح چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنے تہواروں کو پابندی کے ماحول میں منانا پسند نہیں کرتے۔ اگرچہ کہ برطانیہ کے مسلمانوں نے اپنی دو عیدیں پابندیوں میں منائی ہیں لیکن برطانوی عوام کرسمس کا تہوار کھلے اور آزادانہ ماحول میں منانا چاہتے ہیں۔ ایک طرف برطانوی ابتر معاشی حالت سے پریشان ہیں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ حکومت کووڈ کے احتیاطی اقدامات پر انہیں پابند بنائے۔ اس کے علاوہ وہ حکومت پر خاطرخواہ معاشی Packages فراہم نہ کرنے کا بھی الزام عائد کر رہے ہیں۔ اگرچہ بورس جانسن کے اقدامات عوام کی صحت اور جانوں سے تحفظ کے لئے ہیں لیکن برطانوی باشندوں کی اکثریت ان کی بات پر توجہ دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
عوام کی نقل و حرکت پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے فیصلوں کے درمیان اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ کیا وبا سے نمٹنے کے لئے سرکاری اقدامات پر ہونے والے خرچ سے نمٹنے کے لئے ٹیکسوں میں اضافہ کیا جائے یا اخراجات میں کمی کی جائے۔ قرض کے حصول میں پہلے ہی اضافہ ہوگیا ہے اور یہ تقریباً 400 بلین پاونڈ 537) بلین ڈالر) تک پہنچ گیا ہے۔ جانسن کے لئے خطرہ یہ ہے کہ جن ارکان پارلیمنٹ نے ان کی تجاویز کی مخالفت کرتے ہوئے علم بغاوت بلند کیا ہے وہ آگے بھی ایسا کرسکتے ہیں اوران کے منصوبوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ اس بغاوت نے بورس جانسن کو جہاں پریشان کیا ہے وہیں آنے والے دنوں میں دیگر پارلیمانی لڑائیوں خاص طور سے یوروپی یونین سے برطانیہ کی بریگزٹ علیحدگی کے عمل پر بھی اپنا اثر ڈال سکتی ہے۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
مجموعی طور پر برطانوی عوام نے اپنے ردِ عمل سے اپنی شبیہ کو جس طریقے سے خراب کیا ہے اسے ٹھیک کرنے میں انھیں کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔
(کالم نگاردہلی میں مقیم ہیں، اس سے پہلے وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔)
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Dec 2020, 10:11 AM IST
تصویر: پریس ریلیز