بی جے پی چاہے لاکھ کہتی رہے کہ ضمنی انتخابات کے نتائج کو اگلے سال ہونے والے عام انتخابات سے جوڑ کر نہ دیکھا جا سکتا اور نہ ہی دیکھنا چاہئے ۔ وہ ایسا اس لئے کہہ رہی ہے کیونکہ نتائج اس کے حق میں نہیں آئے ہیں ، ظاہر ہےایسے حالات میں ایسے ہی رد عمل کی امید بھی کرنی چاہئے ۔ دوسری جانب اگر حزب اختلاف بار بار ان نتائج کو آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات سے جو ڑ کر پیش کر رہا ہے تو وہ بھی اسی لئے کہہ رہا ہے کہ نتائج اس کے حق میں اور بی جے پی کے خلاف ہیں۔
اگر بر سر اقتدار جماعت اور حزب اختلاف جماعتوں کی بات چھوڑ دی جائے تو ان انتخابات نے کئی واضح اشارے پیش کر دیئے ہیں اور ان اشاروں میں سب سے اہم اشارہ اترپردیش سے آیا ہے ۔دراصل اتر پردیش وہ ریاست ہےجہاں سے وزیر اعظم نریندر مودی منتخب ہو کر آئے ہیں ، بی جے پی کو 80 لوک سبھا سیٹوں میں سے 73 سیٹیں حاصل ہوئیں اور اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو 400 میں سے 325 سیٹیں حاصل ہوئیں، ملک کے ویر داخلہ یہیں سے آتے ہیں اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ (اصلی نام اجے سنگھ بھشٹ ) کو پورے ملک میں ہونے والے انتخابات میں مودی کے بعد سب سے بڑے چہرے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔ اسی ریاست میں اگر وزیر اعلی گورکھپور کی اپنی سیٹ اور پھولپور کی سیٹ ہار جاتے ہیں ، کیرانہ کی لوک سبھا اور نورپور کی اسمبلی سیٹ ہار جاتے ہیں تو اس کا پیغام بڑا ہے۔ یہ تصویر اتر پردیش کی ہے لیکن اگر مہاراشٹر کی پالگھر لوک سبھا سیٹ کو چھوڑ دیا جائے تو بی جے پی کے لئے کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں آئی ہے ۔ اگر پنجاب اور کرناٹک اسمبلی سیٹ میں کانگریس کی جیت پر کوئی یہ تبصرہ کرے کہ وہاں تو یہ پارٹی بر سر اقتدار ہے تو پھر یہ فارمولہ اتر پردیش، بہار، جھارکھنڈ اور دیگر ریاستوں میں کیوں لاگو نہیں ہوتا۔ دراصل جب پورے ملک سے ایسے رجحان آئیں تو بی جے پی کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ملک کے عوام کو زمینی حقیقت اور زبانی حقیقت کے فرق کا بخوبی اندازہ ہو چکا ہے ۔
کیرانہ اور نورپور میں بی جے پی کی شکست کا صاف مطلب ہے کہ بی جے پی کی تقسیم کرنے والی سیاست حزب اختلاف کے اتحاد کے آگے کہیں نہیں ٹک پائی ۔ کرناٹک کے بعد حزب اختلاف نے جس سمجھداری اور دوراندیش کا مظاہرہ کیا ہے اس نے بی جے پی کے پیروں تلے سے زمین نکال دی ہے ۔ ان دونوں سیٹوں کی اور خاص طور سے کیرانہ کی جیت کا واضح پیغام ہے کہ ہندوستان میں جناح کی مسلم لیگی سیاست نہیں چل سکتی ، یہاں بھائی چارےاور پیار کی سیاست ہی کا راج ہو گا۔
Published: undefined
کیرانہ نے تقسیم کی سیاست کے منھ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے۔ مغربی اتر پردیش کو جاٹ -مسلم فساد کے بعد جس طرح مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی کوشش کی تھی اس کا جواب کیرانہ کے عوام نےمتحد ہوکر ووٹ کے ذریعہ ان طاقتوں کو شکست کی شکل میں دیا ہے ۔ کیرانہ میں ووٹنگ کے دن جس طرح جاٹ برادری کے لوگ اورمسلم خاندان ایک ساتھ ووٹ کرنے گئے تھے اسی دن ہندوستان جیت گیا تھا ۔ اس کے بعد نتائج کچھ بھی آتے لیکن ہندوستان کا آپس میں پیار اور بھائی چارہ اسی دن جیت گیا تھا ۔ ہندوستان کو جیتانے کے لئے اتر پردیش کے ذی شعور رائے دہندگان کو دل کی گہرائیوں سے سلام ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام میں گنّے کے پیسوں کو لے کر ، حکومت کی کارکردگی کو لے کر اور مرکز ی حکومت کے ذریعہ وعدے پورے نہ کرنے کو لے کر بہت ناراضگی تھی لیکن یہ جیت حکومت سے ناراضگی کی نہیں ہے یہ جیت بھائی چارے اور پیار کی جیت ہے۔ یہاں یہ باتیں بھی بے معنی ہو جاتی ہیں کہ کس طرح ووٹنگ سے ایک دن قبل وزیر اعظم نے باغپت جاکر ایکسپریس وے کے ایک حصہ کا افتتاح کرکے انتخابات کو متاثر کرنے کی کوشش کی یا وزیر اعلی یوگی نے وہاں ڈیرا جمائے رکھا۔
ملک بھر سے آئے نتائج اور خاص طور سے اتر پردیش سے آئے نتائج سے مندرجہ ذیل چند باتیں نکل کر سامنے آتی ہیں ...
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز