وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے قافلے پر عام لوگوں کے پتھراؤ کا ویڈیو اور تصویریں سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئیں۔ یہ تصویریں گزشتہ 12 جنوری کی تھیں جب پٹنہ سے 100 کلو میٹر دور بکسر ضلع کے ڈمراؤں ڈویژن کے نندن گاؤں کی تھیں جہاں بہار کے سب سے مضبوط وزیر اعلیٰ مانے جانے والے نتیش کمار پر ریاست کے سب سے کمزور طبقہ یعنی مہادلتوں نے پتھراؤ کیا۔ پتھراؤ کرنے والوں میں مرد بھی شامل تھے اور خواتین بھی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ ہمیشہ سے ہی خواتین اور مہادلتوں کے سب سے بڑے حمایتی ہونے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ پتھراؤ کے معاملے میں 10 خواتین سمیت 28 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں 5 ایف آئی آر بھی درج کیا جا چکا ہے جن میں 99 لوگوں کو نامزد اور 700 لوگوں کو نامعلوم ملزم بنایا گیا ہے۔
برسراقتدار جنتا دل یو نے اس حملے کے لیے براہ راست اپوزیشن پارٹی آر جے ڈی اور اس کے لیڈر تیجسوی یادو کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ شروع میں تو محسوس ہوا کہ یہ واقعہ بھی لوگوں کی ناراضگی کا صرف ایک مثال ہے جس کا نتیش کو اپنے دوروں کے دوران اکثر سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس مرتبہ بھی جب مغربی چمپارن سے گزشتہ مہینے انھوں نے اپنی ’وِکاس سمیکچھا یاترا‘ شروع کی تو کئی مقامات پر انھیں احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن بکسر میں ان کے قافلے پر ہوئے حملے نے، جس میں انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچا، لوگوں کو 27 ستمبر 2012 کو (جب وہ پہلی بار بی جے پی کے ساتھ اتحاد میں تھے) ’ادھیکار یاترا‘ کے دوران ہوئے اس حادثہ کی یاد تازہ کر دی جس میں کھگڑیا ضلع میں کانٹریکچوئل ٹیچروں کی ایک ناراض بھیڑ سے انھیں بچانا پڑا تھا۔ اس وقت کسی اور نے نہیں بلکہ جنتا دل یو ممبر اسمبلی پونم دیوی کے بدنام زمانہ شوہر رنویر یادو نے ناراض ٹیچروں کی بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے اپنی بیوی کے سیکورٹی گارڈ سے اس کی رائفل چھین کر ہوا میں گولی چلائی تھی۔ اس واقعہ پر نتیش کمار نے سب کے سامنے رنویر یادو کا شکریہ ادا کیا تھا جو کہ پہلے کئی سنگین جرائم کا ملزم رہ چکا ہے۔
دراصل 2012 میں نتیش نے بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دیے جانے کا مطالبہ کرنے کے مقصد سے ’ادھیکار یاترا‘ کا انعقاد کیا تھا۔ انھوں نے 4 نومبر کو پٹنہ میں ایک بڑی ریلی کا انعقاد کیا اور پھر 17 مارچ 2013 کو دہلی کے رام لیلا میدان میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ لیکن نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ایسا لگتا ہے کہ بہار کے وزیر اعلیٰ خصوصی ریاست کا درجہ دینے کے اپنے مطالبہ کو بھول ہی گئے ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے جیسے یو پی اے-2 کے پورے دور میں نتیش کمار کے ذریعہ اس ایشو کو صرف سیاسی وجوہات سے ہی زندہ رکھا گیا تھا۔
بہر حال، 12 جنوری کو بکسر میں ہوئے حملہ کے دوران لوگوں میں جس طرح کی ناراضگی تھی ویسی ناراضگی پہلے ہوئے حملوں کے دوران دیکھنے کو نہیں ملی تھی۔ جن لوگوں نے بکسر میں پتھر پھینکے وہ اساتذہ، طلبا، سرکاری یا دیگر کانٹریکچوئل ملازمین نہیں تھے بلکہ معاشی اور سماجی طور پر سماج کے سب سے کمزور طبقہ کے لوگ تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس حملے میں مہا دلت خواتین سب سے آگے کی صف میں تھیں۔
حادثہ کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر وزیر اعلیٰ کے قافلے میں شامل پولس والوں اور خواتین پر پتھر پھینکتی خواتین کی تصویروں کی سیلاب سی آ گئی۔ بعد میں پولس نے بھی اسی بے رحمی کے ساتھ جوابی کارروائی کی۔ بکسر گاؤں کے مہادلتوں کے دل میں دبا غصہ ملک کے دیگر حصوں کے دلتوں میں ابھر رہے غصے سے بہت حد تک الگ تھا۔ خواتین خاص طور سے چاہتی تھیں کہ وزیر اعلیٰ ان کے گاؤں آئیں اور خود دیکھیں کہ کس طرح کی بدحالی ہے اور کوئی بھی بنیادی کام علاقے میں نہیں ہوا ہے۔ لیکن نتیش نے غیر مہادلت ذات کی بالادستی والے گاؤوں کا دورہ کیا۔ اس واقعہ نے ریاستی حکومت کے کام کرنے کے طریقے کی قلعی کھول دی ہے۔
16 جون 2013 کے بعد سے اب تک کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، اور خود نتیش کمار نے تین بار اتحاد بدلا ہے جس کی وجہ سے زمینی سطح پر نوکرشاہی میں غیریقینی کی صورت حال ہے۔ بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور لوٹ نے ترقیاتی کاموں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ مکمل شراب بندی نافذ کرنے سے ریاست کو پروڈکشن ٹیکس سے آنے والے بہت بڑے خزانے سے بھی محروم ہونا پڑا ہے۔ اپنی معیشت میں بہتری کے لیے ریاستی حکومت کو اچانک سے ریت کانکنی پر ٹیکس لگا کر پیسہ کمانے کی یاد آ گئی۔ حالانکہ پٹنہ ہائی کورٹ نے حکومت کے اس فیصلے پر روک لگا دی ہے۔ لیکن ریت تاجروں پر حکومت کی کارروائی سے سبھی تعمیراتی کام ٹھہر سے گئے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت کے اس قدم سے بلڈر اور رئیل اسٹیٹ ڈیلر متاثر ہوئے ہیں، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر مزدوروں، انتہائی پسماندہ اور دلتوں یا مہادلتوں پر پڑا ہے۔ اس وجہ سے اس طبقہ میں ناراضگی واضح شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ نندن گاؤں کا واقعہ ممکن ہے کہ کسی بہت بڑے واقعہ کی محض چنگاری ہو، لیکن جنتا دل یو نے اس واقعہ کے لیے آر جے ڈی کو ذمہ دار ٹھہرا کر ایک سیاسی غلطی ضرور کر دی ہے۔ ایسا کر کے پارٹی نہ لاشعوری میں مہادلتوں کو آر جے ڈی کے حق میں کھڑا کر دیا ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز