پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کے آخر میں نریندر مودی کی حکومت کا اعلیٰ ذات کو سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں 10 فیصد ریزرویشن دینے کا فیصلہ اپنے آپ میں پوری کہانی بیان کر رہا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت پورے ساڑھے چار سال کے دوران اس بات کے لیے سب سے زیادہ تنقید برداشت کرتی رہی کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق ہر سال دو کروڑ روزگار دینے کے مواقع پیدا نہیں کیے اور سرکاری ملازمتوں میں نہ صرف لگاتار تخفیف کی گئی ہے بلکہ پہلے سے پسماندہ دلتوں کے لیے ریزرو سیٹیں ہزاروں کی تعداد میں خالی پڑی ہیں۔
نریندر مودی حکومت نے غریب اعلیٰ ذات کو ریزرویشن دینے کا فیصلہ محض آئندہ لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے ارادے سے لیا ہے لیکن یہ اس کے ایک اور ’جملے‘ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ کسی بھی طبقہ کے ریزرویشن کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس کے لیے آئین میں سہولتیں ہوں۔ دوسرا اس کے لیے ایک سروے رپورٹ تیار کی جانی چاہیے۔ آئین کے مطابق سماجی و تعلیمی سطح پر پسماندہ طبقات کو ریزرویشن دینے کے لیے پہلے کالا کالیلکر کمیشن اور اس کے بعد 1978 میں بی پی منڈل کمیشن کی تشکیل کی گئی تھی۔ ملک میں جن ریاستوں میں بھی ریزرویشن دینے کے فیصلے کیے گئے ہیں اس سے پہلے انھیں ریزرویشن دینے کی ٹھوس وجہیں بتانی پڑی ہیں۔ مہاراشٹر میں حال میں مراٹھوں کو ریزرویشن دینے کے ارادوں کو پورا کرنے کے لیے کمیشن کی تشکیل کی گئی۔ لیکن مرکزی حکومت کے ذریعہ اعلیٰ ذات کو ریزرویشن دینے کے فیصلے کے پہلے اس طرح کا کوئی بنیادی دستاویز تیار نہیں کیا گیا ہے جس کی بنیاد پر بھی مرکزی حکومت کے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج دیا جا سکتا ہے۔
دوسری بات کہ آئین میں اقتصادی طور پر پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ریزرویشن غریبی مٹانے کا پروگرام نہیں مانا جاتا ہے۔ یہ ہندوستانی سماج میں ان طبقات کے لیے خصوصی موقع دینے کے نظریہ سے آئینی طور پر قابل قبول اصول ہے کہ سماج میں ذات کی بنیاد پر لوگوں کو نیچے کے درجہ میں صدیوں سے رکھا گیا ہے اور انھیں پڑھنے لکھنے سے محروم رکھا گیا ہے۔ ملک کی جن ریاستوں میں اقتصادی بنیاد پر ریزرویشن دینے کی کوشش کی گئی ہے وہ سبھی کوششیں اب تک ناکام ہوئی ہیں۔ مرکزی حکومت کی جانب سے یہ اشارہ دیا جا رہا ہے کہ اعلیٰ ذات کو ریزرویشن آئین میں ترمیم کر کے دیا جا سکتا ہے، جب کہ کیشوانند بھارتی معاملے میں سپریم کورٹ کی آئینی بنچ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ آئین کی اصل شکل اور ڈھانچے کو چھوا بھی نہیں جا سکتا ہے۔ سپریم کورٹ نے ہی منڈل کمیشن کی باتوں کو نافذ کرنے کے فیصلے کے ضمن میں اندرا ساہنی معاملے میں فیصلہ سنایا تھا کہ ریزرویشن کی حد پچاس فیصد سے زیادہ نہیں کی جا سکتی ہے۔
مرکزی حکومت لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے ارادے سے یہ فیصلہ کر رہی ہے کیونکہ 11 دسمبر کو بی جے پی کی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ کے اسمبلی انتخابات میں زبردست شکست کے نتیجوں کی خبریں سننی پڑیں۔ وہاں کانگریس نے زبرست کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی کو لگتا ہے کہ لوک سبھا میں فتح حاصل کرنے کے لیے اپنے ووٹ بینک کا ’جگاڑ‘ نہیں بٹھایا تو انھیں 2014 کو دہرانے میں بے حد مشکلیں اٹھانی پڑ سکتی ہیں۔ گزشتہ ساڑھے چار سالوں کے دوران مختلف اسباب سے دلتوں، پسماندوں کی طرح اعلیٰ ذات ووٹروں کی بنیاد بھی بی جے پی سے کمزور ہوئی ہے۔ دلت ایکٹ کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے نے جب 2 اپریل 2018 کو دلت-بہوجن تنظیموں کو سڑکوں پر اتار دیا تو وہ نریندر مودی کے خلاف چلے آ رہے غصے کا دھماکہ تھا۔ نریندر مودی کی حکومت کو عدالت کے فیصلے کے خلاف پارلیمنٹ میں آئین ترمیم لے آئین لیکن اعلیٰ ذات کے ذات پر مبنی تنظیموں نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے اسمبلی انتخابات سے بی جے پی کو شکست دینے کا اعلان کر دیا۔
Published: undefined
بی جے پی کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اس کا سوشل انجینئرنگ یعنی ذاتیوں کے درمیان توڑ پھوڑ اور ان کے درمیان پولرائزیشن کے ذریعہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر یقین بڑھا ہے۔ امت شاہ کا مائیکرو انتخابی مینجمنٹ یہی ہے۔ لیکن ذاتیات کے اس کھیل کا اب دم نکلتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ بی جے پی پسماندوں کے ریزرویشن کے اصول کے خلاف میں رہی ہے۔ بہار میں جب گزشتہ اسمبلی انتخاب ہو رہا تھا تو اسی دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ریزرویشن کی آئینی سہولتوں کے تجزیہ کی بات دہرا کر ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا اور بہار میں بی جے پی کو شکست ہاتھ لگی تھی۔ اس وقت سے آر ایس ایس فیملی ریزرویشن کی مخالفت کرنے میں محتاط دکھائی دیتی رہی ہے اور اس کی مثال دہلی میں وگیان بھون میں آر ایس ایس کے عظیم الشان پروگرام میں بھی دیکھنے کو ملی جب موہن بھاگوت نے ریزرویشن کی حمایت کر دی۔ لیکن دوسری طرف یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ دلتوں، پسماندوں کے ریزرویشن کو بی جے پی کی حکومتیں کئی حصوں میں تقسیم کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ سابق جسٹس جی روہنی کی صدارت میں ایک کمیشن اپنی رپورٹ کو آخری شکل دینے میں لگی ہے۔ اتر پردیش میں یہ کوشش ہو رہی ہے۔ دوسری طرف بی جے پی کی حکومتیں ان ذاتوں کو ریزرویشن دینے کے فیصلے جلدی جلدی کر رہی ہے جو کہ آئین کے مطابق ریزرویشن کے حقدار نہیں ہو سکتے ہیں۔ ان میں مہاراشٹر کی مثال سب سے نئی ہے۔
نریندر مودی حکومت کے اس فیصلے کے نتائج اس کے پیچھے چھپے ارادوں سے الٹ بھی ہو سکتے ہیں۔ اعلیٰ ذات ووٹروں کو اپنے حق میں متحد کرنے کا پیغام اور دوسری طرف دلتوں و پسماندوں کو تقسیم کرنے کی کوشش انتخابی مطلب نکالنے کا پیغام دیتی ہے۔ نریندر مودی حکومت کے دوران دلتوں و قبائلیوں کو پروموشن میں ریزرویشن نہیں دینے کی مخالفت میں تحریک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بی جے پی پسماندہ دلتوں و قبائلیوں کے لیے آئین میں ریزرویشن کے اصول کی مخالفت کرتے کرتے اعلیٰ ذات کے لیے ریزرویشن کا انتظام کرنے تک کے سیاسی سفر سے گزر رہی ہے۔ ایسی حالت میں جب کہ حکومت میں ملازمتیں کم ہوتی جا رہی ہیں اور پرائیویٹائزیشن کے عمل کو سب سے زیادہ تیز رفتار میں نافذ کرنے کے تئیں بی جے پی کی حکومتیں اپنے عزم کا اظہار کرتی ہیں، بی جے پی کی پالیسیوں میں اس قدر تضاد نظر آتا ہے کہ لوگوں کو انھیں ’جملہ‘ کہنے میں زیادہ ماتھا پچی نہیں کرنی پڑتی ہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined
تصویر: پریس ریلیز