ایودھیا کے کارسیوک پورم سے رامیشورم تک کی یہ ’رام راجیہ یاترا ‘ 6 ریاستوں سے ہو کر گزرے گی۔
آج سے 28 برس قبل لال کرشن اڈوانی نے زیر بحث رتھ یاترا کی شروعات کر کے بی جے پی کے عروج کے لئے راستہ کھول دیا تھا۔ مذہب کی سیاست نے اس دائیں بازوکی جماعت کے لئے جادو کی طرح کام کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس وقت کے وزیر اعظم وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی ذاتیات پر مبنی سیاست سے کہیں آگے بڑھ گئی جسے انہوں نے ’منڈل کمیشن‘ کی سفارشات کو لاگو کر کے قائم کیا تھا۔
فی الحال اب جبکہ ملک بھر میں بی جے پی کی صورت حال مضبوط ہے تو اس کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کیا پارٹی اپنی زبردست مقبولیت کو برقرار رکھ پائے گی۔ جبکہ ایک سال کے اندر ہی لوک سبھا انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
تقسیم کاری کی اپنی سیاست کو بچائے رکھنے کے لئے کئی طرح کے جوڑ توڑ کرنے کے بعد پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو محسوس ہو رہا ہے کہ ’رام‘ کی قدیمی سیاست کی طرف لوٹنا سہی ہوگا تاکہ 2019 میں دوبارہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف ہو سکے۔ یہ خود نریندر مودی کے بارہا دوہرائے گئے نعرے ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘ اور ’نئے ہندوستان‘ کی تعمیر کے وعدوں کے برخلاف ہے۔
بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے مسلسل یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ 41 دن لمبی اس رام راجیہ یاترا سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے جسے 13 فروری کو تمل ناڈو کے رامیشورم تک کی 6000 کلومیٹر کی یاترا کے لئے روانہ کیا گیا ہے۔ یاترا کے منتظمین کے ترجمان آچاریہ منادی ہری نے کہا ’’یہ یاترا راشٹریہ سوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی دو تنظیموں وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور مسلم راشٹریہ منچ کی طرف سے منعقد کی جا رہی ہے۔ ‘‘
ان کا بیان پہلے سے سوچ سمجھ کر طے کیا ہوا لگ رہا ہے کیوں کہ وہ مسلسل یہ دعوہ کر رہے ہیں کہ یاترا کے پیچھے کوئی سیاست نہیں ہے۔ دریں اثنا بی جے پی کے ترجمان سبھی کو یہ بتانے میں مصروف ہیں کہ یاترا کا مقصد رام مندر اور رام راجیہ کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا کرنا ہے۔
لیکن وہ یہ بتانے سے قاصر رہے کہ اس بیداری کی آخر ضرورت کیا ہے! جن 6 ریاستوں سے یاترا گزرنے والی ہے ان میں سے 3 تو بی جے پی کی حکومت والی ریاستیں ہیں جہاں پارٹی آسانی سے بہتر حکمرانی کے ذریعہ رام راجیہ لا سکتی ہے۔ کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ رام راجیہ صرف مندر کی تعمیر سے ہی آ ئے گا؟
حقیقت تو یہ ہے کہ یاترا اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک، کیرالہ اور تمل ناڈو کے جن حصوں سے ہو کر گزرے گی ان میں کم از کم 224 پارلیمانی حلقہ آتے ہیں۔ اس لئے بی جے پی کی قیادت رام کے نام کا غلط استعمال کر کے لوگوں کے جذبات بھڑکانے کا کوئی موقع گنوانا نہیں چاہتی۔
یہ تمام سرگرمی ان گروہوں کو ساتھ لانے میں بھی کام آ سکتی ہے جن کے ذریعہ بابری مسجد-رام جنم بھومی تنازعہ کا عدالت سے باہرفیصلہ ہو سکتا ہے۔ سپریم کوٹ میں 14 مارچ سے اس معاملہ کی آخری سماعت شروع ہو سکتی ہے۔ صاف ہے کہ عدالت سے باہر فیصلہ کرنے کی بے چینی ہندو تنظیموں میں مسلم تنظیموں سے کہیں زیادہ ہے۔
در اصل جب سے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یہ اعلان کیا ہے کہ وہ عدالتی حکم کا انتظار کرے گا اور ہر صورت حال میں اس پرعمل کرے گا، کئی ہندو اور کچھ مسلم گروہ اس معاملہ میں سمجھوتا کرنے کو لے کر بے قرار نظر آ رہے ہیں۔ چونکہ عدالتی فیصلہ کیا آئے گا اس کا اندازہ لگا پانا مشکل ہے اس لئے ہندو تنظیموں کو عدالت سے باہر نمٹارا زیادہ معقول نظر آ رہا ہے۔ جو ان کے مطابق یعنی رام مندر تعمیر کے حق میں ہے اور جس کی مانگ اس وقت سے جاری ہے جب سے 16 ویں صدی میں تعمیر کردہ بابری مسجد کو منہدم کیا گیا اور اس متنازعہ مقام پر 6 دسمبر 1992 کو ایک عارضی مندر بھی بن دیا گیا۔
شیعہ وقف بورڈ اور اس کے سربراہ وسیم رضوی بھی ایک خاص حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ انہوں نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے رام مندر تعمیر کے لئے مسلمانوں کے دست بردار ہو جانے تک کی تجویز دے ڈالی جبکہ وہ اس مقدمہ میں فریق کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ ان کی مشتبہ شبیہ اس وقت تارتار ہو گئی جب انہوں نے اس زمین کو دینے کے لئے بے چینی کا مظاہرہ کیا جس سے شیعہ وقف بورڈ کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔
رضوی کی طرح ہی کچھ لوگ جوعدالت کے باہر معاملہ کے نمٹارے کی وکالت کر رہے ہیں ان کا بھی اس معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شری شری روی شنکر بھی جو عدالت کے باہر سمجھوتے کے لئے کوشاں ہیں ان کا بھی اس قانونی تنازعہ میں کوئی کردار نہیں ہے۔ عدالت کے باہر ہونے والا کوئی بھی سمجھوتا 2019 کے عام انتخابات پر اثر ڈال سکتا ہے اور کئی مختلف گروہوں کی طرف سے دکھائی جانے والی جلد بازی سے اس کے پیچھے کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی بھی ہندو فریق کسی ایسے سمجھوتے کے لئے تیار نظر نہیں آتا جو مندر کے دعوے کے خلاف ہو۔ دوسری طرف مسلم فریق بار بار یہ کہ رہے ہیں کہ وہ عدالت کا فیصلہ مانیں گے چاہے وہ مسجد کے حق میں آئے یا خلاف۔
جیسے ہی عدالت کے باہر سمجھوتے کی امید نے دم توڑا ’رام راجیہ رتھ یاترا ‘ شروع ہو گئی جس کا مقصد صرف اور صرف ایودھیا کی آگ کوسلگائے رکھنا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ بی جے پی یا وی ایچ پی کا کوئی بڑا رہنما یاترا کے آغاز کے وقت موجود نہیں تھا اور ایک چھٹ بھئیے وی ایچ پی رہنما چمپت رائے نے اسے ہری جھنڈی دکھائی۔ پہلے بھگوادھاری یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ہری چھنڈی دکھانے والے تھے لیکن عین وقت میں بی جے پی کے مقامی رکن پارلیمنٹ للّو سنگھ کا نام مہمان خصوصی کے طور پر منظرعام پر آگیا۔ وہ بھی خاموشی کے ساتھ اس پورے تام جھام سے علیحدہ رہے اوروہ اس وقت پہنچے جب یاترا کار سیوک پورم سے روانہ ہو چکی تھی۔ یہ وہی مقام ہے جہاں مندر تعمیر کے لئے تراشے ہوئے گلابی پتھر جمع کرکے رکھے گئےہیں۔
بی جے پی اور وی ایچ پی کے بڑے رہنماؤں نے اس تقریب سے خود کو اس لئے علیحدہ رکھا کیوں اعلیٰ قیادت اس بات کو لے کر پس و پیش میں ہے کہ اس طویل یاترا پر لوگوں کا کیا رد عمل رہے گا۔ وہ تھوڑا انتظار کرکے ماحول کو پرکھنا چاہتے ہیں۔ فی الحال 24 گھنٹے میں اس یاترا کو بی جے پی کی حکومت والے اتر پردیش میں کوئی خاص توجہ حاصل نہیں ہو پا رہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ آنے والے وقت میں یہ ’رام راجیہ رتھ یاترا‘ سیاسی طور پر بھگوا بریگیڈ کو کتنا فائدہ پہنچائے۔
Published: 15 Feb 2018, 10:01 AM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 15 Feb 2018, 10:01 AM IST