ایک سال سے جتن پرساد کے تعلق سے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ وہ کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کا دامن پکڑ سکتے ہیں۔ جب ان کو مغربی بنگال اسمبلی انتخابات کی ذمہ داری دی گئی اور ان کو انچارج بنایا گیا تو اس بحث پر فل اسٹاپ لگ گیا، لیکن جب بی جے پی میں اتر پردیش کو لے کر روز میٹنگیں ہو رہی تھیں اس وقت اچانک جتن پرساد کے بی جے پی میں شامل ہونے کی خبر سامنے آئی۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
بی جے پی میں شامل ہوتے وقت جتن پرساد نے کانگریس اور اس کی قیادت کی کوئی تنقید نہیں کی، البتہ بی جے پی اور وزیر اعظم نریندر مودی کی ضرورت سے زیادہ تعریف کی، جو ان کی مرضی کم اور مجبوری زیادہ لگتی ہے۔ اس کے بعد کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی قیادت پر سوال کھڑے کیے جانے لگے اور ساتھ میں سچن پائلٹ اور جیوتیرادتیہ سندھیا کا ذکر بھی شروع ہو گیا۔ زیادہ تر لوگوں نے جتن پرساد کی بی جے پی میں شمولیت کو کانگریس کے نقصان کے طور پر پیش کیا اور بی جے پی کے لئے زبردست فائدہ کے طور پر پروسہ۔ یہ بات بھی بہت زور شور سے لکھی اور کہی گئی کہ جتن پرساد کے بی جے پی میں شامل ہونے سے اتر پردیش کے براہمنوں کی ناراضگی کم ہو جائے گی۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
حقیقت یہ ہے کہ کورونا وبا کی دوسری لہر نے اور پنچایت انتخابات کے نتائج نے اتر پردیش کے تعلق سے بی جے پی اور سنگھ کی اعلی قیادت کی نیند اڑا دی ہے۔ یہ بھی جگ ظاہر ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ میں زبردست ٹھنی ہوئی ہے۔ کوئی اس کو اروند شرما کو اتر پردیش کی کابینہ میں شامل نہ کرنے کو وجہ بتا رہا ہے، کوئی دونوں کی انا کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے تو کوئی اس کو اتر پردیش میں براہمن اور رجپوتوں میں بڑھتے ٹکراؤ کو وجہ مانتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اتر پردیش میں بی جے پی کے لئے سب کچھ اچھا نہیں ہے اور اس کو اتراکھنڈ کی طرح قیادت بدل کر سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہونے کی شکل میں بھی پیش نہیں کیا جا سکتا۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
جو لوگ جتن پرساد کے بی جے پی میں شامل ہو نے کو لے کر کانگریس یا راہل گاندھی کی شکست کے طور پر پیش کر رہے ہیں وہ دراصل اس حقیقت پر پردہ ڈالے رکھنا چاہتے ہیں کہ جتن پرساد کے اس عمل نے ان کی اور بی جے پی کی کمزوری کو اجاگر کر دیا ہے۔ اگر جتن پرساد کو بی جے پی میں اس لئے شامل کیا گیا ہے کہ وہ براہمن ہیں تو اس سے دو باتیں صاف ہو جاتی ہیں، ایک تو یہ کہ بی جے پی کو ا پنی پارٹی میں موجود براہمنوں پر یقین نہیں ہے، جس میں نائب وزیر اعلی دنیش شرما ہیں، جس میں ریاست کے وزیر شری کانت شرما اور ریتا بہوگنا جوشی ہیں اور برجیش پاٹھک جیسے کئی براہمن ارکان اسمبلی ہیں۔ دوسرا یہ کہ اس بات کا اعتراف بھی ہے کہ ریاست کے براہمن پارٹی سے ناراض ہیں اور کہیں نہ کہیں اسمبلی انتخابات سے پہلے یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ سب کچھ راجپوت یا ٹھاکروں کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
جتن پرساد جن کو کانگریس نے بہت کچھ دیا یہاں تک کہ وہ منموہن سنگھ کی وزارت میں وزیر رہے عوام ان کو موقع پرست سیاستداں کے خانے میں لاکر کھڑا کر دیں گے اور الزام لگائیں گے کہ اس شخص کا کوئی سیاسی نظریہ یا موقف نہیں ہے، بس اقتدار ہی اس کے لئے سب کچھ ہے۔ براہمن ہونے کی وجہ سے وزیر اعلی اتر پردیش ان کو ہر اہم فیصلوں سے دور رکھیں گے۔ بی جے پی کے دوسرے براہمن رہنما ان کے قد کو پارٹی میں کبھی بڑھنے نہیں دیں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ کبھی بھی ان کے لئے کوئی خطرہ نہ بن سکیں۔ کانگریس سے آنے کی وجہ سے ان پر بی جے پی اور سنگھ کبھی اعتماد نہیں کرے گا یعنی جتن پرساد صرف اس پارٹی کے رکن ہوں گے جو اقتدار میں ہے اور وہ پارٹی اقتدار میں بھی اس وقت آئی تھی جب وہ اس کے مخالف تھے۔ مرکز میں اگر کسی کو قلم دان دینے کی بات شروع ہوتی ہے تو پہلے جیوتیرادتیہ سندھیا کا نمبر آ ئے گا۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
جتن پرساد کے بی جے پی میں شامل ہونے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ بی جے پی میں بہت گھبراہٹ اور خوف ہے ساتھ میں یہ بھی صاف ہو گیا ہے کہ جتن پرساد کسی بھی طرح اقتدار سے دور نہیں رہ سکتے اور ان کا راہل گاندھی کی طرح کوئی مضبوط سیاسی نظریہ نہیں ہے۔ جتن پرساد اور سندھیا جیسے رہنماؤں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ کانگریس کی قیادت اور راہل گاندھی کا سیاسی نظریہ بالکل صاف ہے اور وہ اس سے سمجھوتہ نہیں کر سکتے، چاہے وہ اس جنگ میں اکیلے ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ جتن پرساد جیسے موقع پرست سیاست داں جن کا کوئی نظریہ نہیں ہے وہ کسی پارٹی کے لئے کبھی اثاثہ نہیں ہو سکتے۔ بی جے پی کانگریس سے پریشان نہیں ہے بلکہ وہ اس کے نظریہ سے خوفزدہ ہے۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 10 Jun 2021, 4:11 PM IST