سنہ 2002 کے فسادات کے بعد گجرات کو ہندوتوا لیباریٹری کا لقب دے دیا گیا۔ یہ کوئی بہت مبالغہ آرائی بھی نہیں تھی کیونکہ اسی گجرات نے ہندوستان کو نریندر مودی جیسا ہندوتوادی وزیر اعظم عطا کیا جس کی سیاسی کاوشوں نے ملک کو ہندو راشٹر کی کگار پر لا کھڑا کیا۔ مودی جی گجراتی ووٹر کا ہندوستان کو تحفہ ہیں۔ لیکن اسی گجراتی ووٹر نے سنہ 2017 کے حالیہ اسمبلی چناؤ میں لوہے کے چنے چبوا دیے۔ بقول گجراتی اخباروں کے ’’گجرات میں بی جے پی چناؤ جیت کر بھی ہار گئی اور کانگریس ہار کر بھی چناؤ جیت گئی۔‘‘
گجرات چناؤ ایک عام اسمبلی چناؤ نہیں تھے۔ گجرات میں یہ بھی طے ہونا تھا کہ ہندوستان میں مودی کی دھرم اور مسلم منافرت کی سیاست ہمیشہ کامیاب ہوتی رہے گی یا نہیں۔ سنہ 2017 کے گجرات اسمبلی چناؤ میں مودی کی نفرت کی سیاست اور راہل گاندھی کی سماج کو جوڑنے اور سماجی بھائی چارے کی سیاست کے بیچ ایک رسّہ کشی بن گئی تھی۔ حالانکہ آخر میں مودی کی پارٹی یعنی بی جے پی نے ہی گجرات میں سرکار بنائی۔ لیکن وہ کانگریس پارٹی اپنے مثبت ایجنڈے پر جس طرح لگ بھگ جیت کے قریب پہنچ گئی اس نے ہندوستان کی گنگا-جمنی تہذیب میں یقین رکھنے والی اکثریت کے دلوں میں امید کی ایک کرن جگا دی۔ گجراتی ووٹر نے اس چناؤ میں یہ ثابت کر دیا کہ ہندوستانی تہذیب کی رنگا رنگ روح ابھی بھی زندہ ہے اور اس کو بچانے کی لڑائی ہندوستان آج بھی لڑ رہا ہے اور یہ جنگ جیتی بھی جا سکتی ہے۔ لبرل اور سیکولر ذہنوں میں سنہ 2014 کے لوک سبھا چناؤ کے بعد میں جو مایوسی گھر کر گئی تھی گجراتی ووٹر نے سنہ 2017 میں اس مایوسی کو توڑ کر جو امید جگائی وہ اس کے لیے حال میں خصوصاً لائق ستائش ہیں۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined