عام انتخابات کا نصف سے زیادہ حصہ ختم ہو چکا ہے اور بہار میں چوتھے مرحلے تک 40 میں سے 19 سیٹوں پر ووٹنگ مکمل ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس ریاست میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ نتائج کے اعلان کے بعد بہار کی سیاسی تصویر کیا بننے والی ہے۔
Published: undefined
سب سے بڑا سوال جو اٹھ رہا ہے اگر این ڈی اے اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کی سیٹوں کی تعداد 200 کے آس پاس سمٹ گئی تو این ڈی اے میں بی جے پی کی دو معاون پارٹی جنتا دل یو اور ایل جے پی کا رخ کیا ہوگا۔ خبر گرم ہے کہ نتیش کمار کی وجہ سے جنتا دل یو کو تو کچھ سیٹیں ہاتھ لگ جائیں گی، لیکن ایل جے پی کے سامنے وجود بچانے کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔
Published: undefined
جیسا کہ اندیشہ ہے، لوک جن شکتی پارٹی کے سپریمو رام ولاس پاسوان کے دونوں بھائی اور بیٹا حاجی پور، سمستی پور اور جموئی سے ہار گئے تو بہار میں پاسوان فیملی کی سیاست کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو دلتوں کے مسیحا کے طور پر خود کو پیش کرتے رہے رام ولاس کو آسام سے راجیہ سبھا بھیجنے کا الیکشن سے پہلے کیا گیا وعدہ بھی توڑا جا سکتا ہے۔
Published: undefined
دراصل گزشتہ سال دسمبر میں بی جے پی اور جنتا دل یو کے درمیان طے سمجھوتے میں بہار کی 40 میں سے 17-17 سیٹوں پر جنتا دل یو-بی جے پی اور 6 پر ایل جے پی کو انتخاب لڑنے پر مہر لگی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ رام ولاس پاسوان کو راجیہ سبھا میں بھیجا جائے گا۔
Published: undefined
بہار کی الگ الگ لوک سبھا سیٹوں سے جو خبریں آ رہی ہیں، اس سے اشارے ملتے ہیں کہ ایل جے پی وجود بچانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ سیاسی تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ بہت اچھی کارکردگی رہی تو ایل جے پی ایک یا دو سیٹ جیت سکتی ہے، اور برے حالات میں اس کا صفایا ہو سکتا ہے۔
Published: undefined
گزشتہ لوک سبھا انتخاب کے مقابلے یہ بالکل برعکس حالت ہے جب ایل جے پی نے سات سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور 6 پر جیت حاصل کی تھی۔ وہیں اس وقت این ڈی اے میں رہی آر ایل ایس پی نے تین سیٹوں پر الیکشن لڑا تھا اور تینوں سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ بی جے پی نے 22 سیٹوں پر بازی ماری تھی۔
Published: undefined
بہر حال، یہ پہلا موقع نہیں ہے جب رام ولاس پاسوان ایسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔ اور ان حالات کے لیے کسی اور کو نہیں بلکہ خود رام ولاس پاسوان کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ 2009 کے الیکشن میں ایل جے پی کے حصے میں ایک بھی سیٹ نہیں آئی تھی، ساتھ ہی کانگریس-آر جے ڈی-ایل جے پی اتحاد کا صفایا ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس الیکشن میں کانگریس کی قیادت والی یو پی اے نے اقتدار میں واپسی کی تھی۔ لیکن بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے نے کل 32 سیٹیں جیتی تھیں۔ ان میں سے 20 پر جے ڈی یو اور 12 پر بی جے پی نے جیت حاصل کی تھی۔
Published: undefined
اس کے بعد رام ولاس پاسوان نے لالو پرساد یادو سے مدد مانگی تھی اور انھوں نے پاسوان کو راجیہ سبھا بھیجا تھا۔ حالانکہ بہار سے راجیہ سبھا سیٹ کے لیے کئی لوگ قطار میں تھے، جن میں آر جے ڈی کے رام کرپال یادو بھی تھے۔ وہیں 2010 کے اسمبلی انتخاب میں ایل جے پی کا ایک طرح سے صفایا ہو گیا تھا۔ حالانکہ اس الیکشن میں آر جے ڈی بھی صرف 22 سیٹیں ہی جیت پائی تھی اور این ڈی اے نے 243 میں سے 206 سیٹ پر جیت حاصل کی تھی۔
Published: undefined
دراصل رام ولاس پاسوان اتنی مرتبہ پالہ بدل چکے ہیں کہ شاید انھیں خود بھی یاد نہیں ہوگا۔ فروری 2014 کے تیسرے ہفتہ تک کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاسوان مودی کیمپ میں چلے جائیں گے۔ لیکن گری راج سنگھ جیسے لیڈروں کی مخالفت کے باوجود بی جے پی نے انھیں اپنے خیمے میں جگہ دے دی تھی۔
Published: undefined
لیکن، اس بار سوال یہی بار بار اٹھ رہا ہے کہ اگر این ڈی اے اکثریت سے دور رہا تو جنتا دل یو کیا کرے گا۔ سیاسی پنڈتوں کو لگتا ہے کہ نتیش ایک بار پھر یو ٹرن مار سکتے ہیں۔ ویسے بھی 2009 میں وہ بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دلانے کے نام پر یو پی اے کی حمایت کر بیٹھے تھے، اس بار بھی وہ ایسا ہی کر سکتے ہیں۔
Published: undefined
پرشانت کشور کے جنتا دل یو نائب صدر بننے کے بعد پارٹی نے اپنے دروازے کانگریس اور دوسرے اپوزیشن لیڈروں کے لیے کھلے ہی رکھے ہیں۔ پرشانت کشور کئی مواقع پر کہہ بھی چکے ہیں کہ انھوں نے تو انتخاب سے پہلے ہی بی جے پی کی پانچ سیٹیں کم کر دیں۔ 2014 میں بی جے پی نے 22 سیٹیں جیتی تھیں، لیکن اس بار وہ الیکشن صرف 17 سیٹوں پر لڑ رہی ہے۔ یہ تعداد مزید کم ہی ہوگی کیونکہ اندازہ یہی ہے کہ سبھی 17 سیٹوں پر بی جے پی کو کامیابی نہیں ملنے والی۔
Published: undefined
پھر بھی بی جے پی میں ایسے لیڈروں کی کمی نہیں ہے جو دن میں خواب دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً ابھی دو دن قبل پٹنہ سے بی جے پی امیدوار اور مرکزی وزیر روی شنکر پرساد نے دعویٰ کیا کہ بی جے پی 400 سیٹیں جیتے گی۔
Published: undefined
دعوے اور جوابی دعوے کا دور جاری ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہار میں بی جے پی لیڈر اور کارکنان دونوں مایوس نظر آ رہے ہیں، کیونکہ جنتا دل یو اور ایل جے پی کی طرح ان کی پارٹی کے پاس تو پالہ بدلنے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔
Published: undefined
ویسے بھی بی جے پی اور جنتا دل یو کے درمیان کھٹ پٹ اب پبلک اسٹیج پر بھی نظر آنے لگی ہے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ’وندے ماترم‘ نعرہ پر نتیش کمار خاموش رہے تھے۔ پی ایم نے کئی بار نعرہ دہرایا لیکن نتیش ٹَس سے مَس نہیں ہوئے۔ نتیش کے اس رویہ کو سیاسی تجزیہ نگار این ڈی اے کی 2009 کی پنجاب ریلی سے جوڑ رہے ہیں جب نتیش نے کافی بے دلی کے ساتھ ہاتھ جوڑے تھے۔ اس کے بعد ہی ووٹوں کی گنتی شروع ہونے سے پہلے والی شام کو نتیش نے یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا تھا کہ وہ اس اتحاد کی حمایت کریں گے جو بہار کو خصوصی ریاست کا درجہ دے گا۔ نتیش کے اس بیان سے بی جے پی لیڈر حیران رہ گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ نتائج میں کانگریس کی قیادت والے یو پی اے کی اقتدار میں واپسی ہوئی تھی اور نتیش کو بی جے پی کی قیادت والے این ڈی اے میں ہی رہنا پڑا تھا۔
Published: undefined
لیکن یہ ساتھ زیادہ نہیں چلا اور صرف 13 مہینے بعد انھوں نے اپنے ارادے صاف کر دیئے جب نریندر مودی اور اڈوانی سمیت کئی لیڈروں کے لیے منعقد ڈنر کو رَد کر دیا گیا۔ 4 مہینے بعد انھوں نے اسمبلی انتخاب پھر سے بی جے پی کے ساتھ لڑا تھا۔ لیکن 3 سال بعد ہی انھوں نے بی جے پی کے سبھی 11 وزراء کو برخاست کر دیا اور بی جے پی سے رشتہ منقطع کر لیا۔
ان سب باتوں کے مدنظر نتیش کا اگلا قدم کیا ہوگا، سیاسی پنڈت بھی اس کا اندازہ نہیں لگا پا رہے۔
Published: undefined
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: undefined